تجزیہ:پروفیسر اختر الواسع
علی گڑھ کی علمی فتوحات کے دروازے اگر سر سید نے کھولے تو اس میں علامہ شبلی نعمانی کا حصہ کچھ کم نہیں رہا۔ شبلی اور علی گڑھ کو جاننے کے لیے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے ’’شبلی شناسی کی نئی جہات‘‘ سامنے آتی ہیں اور اس کے لیے ہم سب کو پروفیسر اشتیاق احمد ظلی جو مدرسۃ الاصلاح اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نامور علمی فرزندوں میں شامل ہیں جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور بعد ازاں دار المصنفین یعنی شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے سربراہ بھی رہے پھر صحت کی خرابی کی وجہ سے انھوںنے شبلی اکیڈمی سے سبکدوشی اختیار کر لی لیکن علی گڑھ میں بیٹھ کر وہ خاموش نہ رہ سکے اور انھوں نے شبلی اور علی گڑھ کے رشتوں کی بازیافت کر ڈالی۔
سر سید سے علامہ شبلی پہلی مرتبہ ۱۸۸۱ میں اپنے والد شیخ حبیب اللہ کےساتھ اپنے چھوٹے بھائی مہدی حسن سے ملنے آئے جو ان دنوں ایم اے او کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اس موقعہ پر انھوں نے سر سید سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں اپنا عربی قصیدہ پیش کیا جسے انھوں نے بہت پسند کیا اور اپنے نوٹ کے ساتھ اس کو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۸۱ کے شمارے میں شائع کیا۔ یہ سر سید اور شبلی کا پہلا تعارف تھا ۔ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی کے بقول جن کے قران السعدین نے کالج کی روشن تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ اس کے دو برس بعد وہ دوبارہ ۱۸۸۳ میں بغرض ملازمت علی گڑھ آئے اور ۱۸۹۸ تک وہاں رہے۔ اگر چہ یہ کوئی بڑی مدت نہیں لیکن اپنے نتائج کے لحاظ سے یہ ایک تاریخ ساز واقعہ ثابت ہوا۔علامہ شبلی علی گڑھ نہ آتے تو بھی وہ پرانے انداز کے ایک بڑے عالم ہوتے لیکن وہ شبلی نہ ہوتے جس نے علم و تحقیق کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے جس سے فکر و فن کی شاہراہ آج بھی روشن ہے اور کتنے ہی گم کردہ راہ قافلوں کو اپنی منزل کا نشان ملتا ہے۔
سفر و حضر میں سر سید ان کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ چاہے کالج کے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے حیدر آباد اور بھوپال کا سفر ہو یا نینی تال کا جو محض چند دن آرام کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدر آباد اور بھوپال کے وفد میں کئی ارکان شریک سفر تھے لیکن نینی تال کے خالص نجی اور ذاتی نوعیت کے سفر میں علامہ شبلی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں ملتا۔ علامہ شبلی کی تعلیم و تربیت کا یہ فیضان تھا کہ ان کے تربیت یافتہ لوگوں میں جو جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ تھا ان کی شناخت مغربی تعلیم نہیں تھی بلکہ اسلامی روایات اس طرح رچی بسی ہوئی تھیں کہ وہ مسٹر کے بجائے مولانا کہلائے اور مولانا کا لاحقہ ان کی پہچان اور شناخت بن گیا۔ بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میںشبلی کے ان شاگردوں میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خاں کے نام نامی سر فہرست ہیں۔
سر سید نے شبلی کے ایم اے او کالج کی ملازمت کے دوران شہر میں ان کے قیام کو تکلیف دہ سمجھ کر انھیں سر سید ہاؤس کے قریب منتقل کر دیا جس نے ان کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ سر سید کی ذاتی لائبریری میں یورپ کی چھپی ہوئی کتابوں کا ایک نہایت قیمتی ذخیرہ موجود تھا، سر سید نے انھیں لائبریری کے استعمال کی عام اجازت دے رکھی تھی، وہ گھنٹوں اپنی پسند کی کتابوں کو الماریوں کے سامنے کھڑےکھڑے پڑھتے رہتے اور جب تھک جاتے تو فرش پر بیٹھ جاتے۔ جب سر سید نے ان کا یہ ذوق و شوق دیکھا تو وہاں ایک میز اور کرسی رکھوا دی تاکہ وہ وہاں بیٹھ کر مطالعہ کر سکیں اور ضروری نوٹس لے سکیں۔ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی کے بقول اسی لائبریر ی نے ان کے عہد حاضر کے سب سے بڑے مسلمان مؤرخ ہونے کی راہ ہموار کی۔ سر سید اور شبلی دونوں کو تاریخ سے خصوصی لگاؤ تھا مگر ایک بنیادی فرق کے ساتھ بقول پروفیسر ظلّی سر سید کی دلچسپی ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ سے تھی چنانچہ ان کی جملہ تصنیفات اسی موضوع کے اردگرد گھومتی ہیں، علامہ شبلی کی بنیادی دلچسپی تاریخ اسلام سے تھی، انگریزوں کے ہاتھوں شکست، ناقابل بیان مظالم اور غلامی نے پوری قوم کو ایک پیچیدہ نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا۔شبلی اکیڈمی نے اپنے بانی کے اس کا م کو جاری رکھا اور بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے فکری غذا فراہم کرنے کا ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا۔ یہ کام بلا شبہ ملک کا کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا۔
ہم پروفیسر اشتیاق احمد ظلی کے شکر گزا ر ہیں کہ انھوں نے باوجود ناسازی طبع کے علامہ شبلی نعمانی اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے جو بیش قیمت معلومات ہمیں فراہم کی ہیں وہ غیر معمولی ہیں۔ انھوں نے ندوہ سے شبلی کا جانا اور بابائے اردو مولوی عبد الحق اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے شبلی کے خلاف جو تحریک چلائی گئی اس کا بھی انتہائی متانت اور ثقاہت کے ساتھ جس طرح تذکرہ کیا ہے وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں)