تحریر: حامد میر
بیس سال میں ایک بچہ جوان ہو جاتا ہے اور جوان بوڑھا لیکن افغانستان وہیں کھڑا ہے، جہاں بیس سال پہلے تھا۔ مجھے یاد ہے کہ نومبر 2001 میں کابل کے علاقے وزیر اکبر خان میں اُسامہ بن لادن کا انٹرویو کر کے میں واپس طورخم کی طرف آ رہا تھا۔ کابل شہر کے باہر اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ کے قریب ایک چیک پوسٹ پر مجھے طالبان نے روک لیا۔ انہوں نے میرے پاس کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر دیکھا تو پوچھ گچھ شروع کر دی۔ میں پاسپورٹ پر ویزہ لگوا کر افغانستان میں داخل ہوا تھا اور میری تمام سفری دستاویزات مکمل تھیں۔ طالبان نے مجھے پہچان بھی لیا تھا لیکن ان کے کمانڈر مُلا خاکسار نے میرا موبائل فون لے لیا، جو بند تھا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ تم افغانستان میں کیوں آئے ہو؟
میں بار بار ایک ہی جواب دے رہا تھا کہ یہاں جنگ ہو رہی ہے، میں جنگ کی رپورٹنگ کرنے آیا ہوں۔ وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتا کہ تم تو اخبار کے ایڈیٹر ہو خود رپورٹنگ کے لیے کیوں آ گئے؟ میں نے اسامہ بن لادن کے ساتھ انٹرویو کی ٹیپ اور کیمرہ فلم گاڑی میں چھپا رکھی تھی البتہ واپسی پر کابل میں ایک تباہ شدہ امریکی ہیلی کاپٹر کی تصاویر بنائی تھیں۔ میں نے مُلا خاکسار کو بتایا کہ کیمرے میں تباہ شدہ امریکی ہیلی کاپٹر کی تصویریں ہیں۔ اس دوران طالبان حکومت کے وزیر دفاع مُلا عبیداللہ اخوند کو میرے بارے میں اطلاع مل چکی تھی۔ انہوں نے گاڑی بھیج کر مجھے بلوا لیا اور افغانی قہوے کی پیالی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جلد از جلد افغانستان سے واپس چلے جائیں، ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ میں نے پوچھا آپ کابل سے پسپائی تو اختیار نہیں کریں گے؟ وہ مسکرائے اور کہا کہ جنگ میں یہ سب ہوتا ہے۔ ہم حکمت عملی کے تحت شہر کو بچانے کے لیے پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔
کچھ برسوں کے بعد ملا عبیداللہ اخوند کو پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا۔ 2010ء میں پاکستان کی حراست میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ اسی سال ایک اور طالبان رہنما استاد یاسر بھی پاکستان کی حراست میں انتقال کر گئے اور انہی دنوں مُلا عبدالغنی برادر کو بھی پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا۔ 15 اگست 2021ء کو طالبان بیس سال کے بعد کابل میں داخل ہوئے تو مجھے مُلا عبدالرزاق اخوند کے وہ الفاظ یاد آئے کہ ہم واپس ضرور آئیں گے۔
بیس سال پہلے طالبان واپس آنے کے لیے کابل سے پسپا ہوئے لیکن امریکی واپس آنے کے لیے کابل نہیں چھوڑ رہے۔ سقوط کابل کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، ان سے پتا چل رہا ہے کہ افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی واپسی کے بعد بھی یہ ملک بدامنی اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔
طالبان کا مقابلہ اپنے پرانے مخالفین سے نہیں بلکہ ایک نئے دشمن سے ہے، جس کا نام داعش ہے، جو دولت اسلامیہ بھی کہلاتی ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملے میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ساتھ طالبان اور عام افغان شہریوں کا بھی جانی نقصان ہوا۔ پہلی دفعہ طالبان اور امریکی فوج ایک ساتھ کسی حملے کا نشانہ بنے۔ داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اگلے ہی دن حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ننگرہار میں ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا گیا۔
طالبان نے اس ڈرون حملے کی مذمت کی۔ اس سے اگلے دن داعش پر ایک اور فضائی حملہ کیا گیا۔ طالبان کے پاس مذمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ان کے پاس زمینی فوج موجود ہے لیکن ایئرفورس موجود نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر ان کے قبضے میں آ چکے ہیں لیکن پائلٹ نہیں ہیں۔
جس امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طالبان نے بیس سال مزاحمت کی، آج طالبان اسی امریکا کو کہہ رہے ہیں کہ کابل میں اپنا سفارت خانہ بند نہ کرو۔ جو طالبان کبھی تصویر کھینچوانا حرام سمجھتے تھے، آج انہی طالبان کے ترجمان عالمی میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ وہ طالبان جو بچیوں کے اسکول بند کرانے کی وجہ سے بدنام تھے، وہ طالبان آج افغان میڈیا خواتین اینکرز کو انٹرویو دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے یہ سوال زیربحث ہے کہ کیا آج کے طالبان بیس سال پرانے طالبان سے مختلف ہیں؟ عالمی میڈیا میں آج کے طالبان کے لیے ’’نیو طالبان‘‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ مغربی میڈیا کو افغان طالبان اور داعش کا فرق پتا ہے لیکن ہندوستان کا میڈیا اس فرق سے نابلد نظر آتا ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر حملے کے بعد سے ہندوستان کا میڈیا داعش کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی کوشش میں ہے۔ انہیں یہ نہیں پتا کہ طالبان نے افغانستان میں جنم لیا اور داعش نے عراق میں جنم لیا۔ جب طالبان نے امریکا سے بات چیت شروع کی اور قطر میں اپنا دفتر بنایا تو افغانستان میں داعش کو کھڑا کر دیا گیا۔ طالبان کے کچھ جنگجو داعش میں چلے گئے۔ طالبان اور داعش کی لڑائی شروع ہو گئی اور یوں ایران جیسے ملک نے طالبان کی مدد شروع کر دی۔ ایرانیوں کے خیال میں طالبان بہت سے معاملات میں سخت گیر ہیں لیکن داعش کی طرح فرقہ وارانہ سوچ نہیں رکھتے۔
داعش کے ساتھ لڑائی کے بعد طالبان نے روس کی توجہ بھی حاصل کی اور اب اس لڑائی کے بعد طالبان اور امریکا میں تعاون کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ آج کی طالبان قیادت ملا عمر کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے، مگر انہوں نے حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے تحت وہ میڈیا اور سفارت کاری کے محاذ پر بھی سرگرم ہوئے لیکن آج کے طالبان کو بہت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا گیا تو طالبان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
سب سے بڑا چیلنج تو داعش ہے۔ داعش کے مقابلے کے لیے طالبان کو خطے کے تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ خطے کے ممالک صرف اسی صورت میں طالبان کے ساتھ چلیں گے اگر افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 15 اگست کے بعد سے کئی دعوے اور وعدے کیے ہیں۔ ان دعوؤں کو حقیقت بنانا بھی ایک چیلنج ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں میڈیا آزاد ہو گا۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ افغان میڈیا بدستور شدید دباؤ میں ہے۔ کچھ خواتین صحافی افغانستان میں کام کرتی نظر آ رہی ہیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں، جن کو کام سے روک دیا گیا۔ کچھ صحافی گرفتار ہوئے پھر رہا کر دیے گئے۔ کچھ صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے پر صحافیوں کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ افغانستان میں کام کرنے والے افغان صحافیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافیوں کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے، جو بیس سال پہلے مجھے کابل میں درپیش تھی۔
پاکستانی صحافیوں کو جگہ جگہ روکا جاتا ہے اور واپس جانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ طالبان کو چاہیے کہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے میڈیا کو آزادی دیں۔ آنے والے دنوں میں ڈس انفارمیشن افغانستان کے غیریقینی حالات میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہے۔ ڈس انفارمیشن کے خلاف بہترین ویکسین آزاد میڈیا ہے۔ آج کے طالبان افغانستان کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے اس ویکسین سے مدد لے سکتے ہیں، انہیں اس ویکسین کے ردعمل یا وقتی تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
(بشکریہ : ڈی ڈبلیو)