ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
دہلی ہائی کورٹ نے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے)، مرکز و دہلی حکومت سے این آئی اے مقدمات میں ہونے والی غیرمعمولی تاخیر پر جواب داخل کرنے کو کہا ہے، پٹیشن میں پیش کئے گئے حقائق حیرت انگیز ہیں، یہ پورے نظام عدلیہ اور این آئی اے کے کام کرنے کے طریقوں پر سے پردہ اٹھانے والے حقائق ہیں، این آئی اے کے ذریعے درج مقدمات، عدلیہ سے ملنے والی لگاتار فتوحات کی سچائی، اور پورے کرمنل جسٹس سسٹم پر ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں، ان حقائق پر غور کرنا ہر شہری کی دستوری ذمہ داری ہے کیونکہ ہم ایک عوامی جمہوری نظام حکومت کا حصہ ہیں، پٹیشن منظر امام کی جانب سے داخل کی گئی ہے، منظر امام کو این آئی اے نے 2013 میں ملک کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کیا تھا جب کہ وہ پہلے سے ان الزامات میں جیل میں قید تھا، چارج شیٹ 2014 میں داخل ہوجانے کے باوجود ابھی تک منظر امام کے اوپر مقدمہ کے سماعت کے ابتدائی مرحلہ فریمنگ آف چارج، یعنی الزامات کا تعین نہیں ہوسکا ہے، 2014 میں ہی الزامات کے تعین پر بحث شروع ہوچکی تھی، آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر جیل میں قید ملزمین کے مقدمات عدلیہ کی تساہلی و سست رفتاری کا شکار ہیں، اس مقدمہ کی ایف آئی آر این آئی اے ہیڈکوارٹر میں مرکزی وزارت داخلہ کے آرڈر پر 2012 میں درج کی گئی تھی جس میں این آئی اے نے مبینہ طور پر ملک کے خلاف سرگرمیوں کی سازش میں شامل انڈین مجاہدین کے رول اور ملک کے خلاف اس پوری مبینہ سازش کو ناکام کرنے کی غرض سے این آئی اے نے یہ مقدمہ درج کیا، مختلف مقدمات میں جیلوں میں بند ملزمین کو اس مقدمہ میں بھی ملزم بنا دیا گیا اور این آئی اے ان تمام ملزمین کو دہلی تہاڑ جیل میں منتقل کرتی گئی، پھر ان ملزمین کی متعلقہ مقدمات کی چارج شیٹ میں سے ان کے الزامات جمع کئے گئے نیز دہلی میں این آئی اے کی چارج شیٹ تیار ہوگئی، این آئی اے نے اس مقدمے میں اب تک 24 ملزمین کے خلاف 4 چارج شیٹ داخل کی ہیں، ان چارج شیٹ میں کل 369 گواہ ہیں، 283 دستاویز اور دیگر ثبوت اور شواہد کی فہرست چارج شیٹ کے ساتھ داخل کی گئی ہیں، انڈین پینل کوڈ اور یو اے پی اے قانون کی متعلقہ دفعات کی روشنی میں ان الزامات کے تحت گناہ ثابت ہونے کی صورت میں سزا عمومی طور پر پانچ سال سے سات سال تک کی بتائی گئی ہے۔
اس مقدمہ اور اس سے متعلق پیش کئے گئے حقائق کی روشنی میں پست پشت کارفرما ایک بڑے منظرنامے پر نظر ڈالنا آسان ہوجاتی ہے، این آئی اے کا قیام 2008 میں ممبئی حملے کے بعد پارلیمنٹ سے پاس کئے گئے اسپیشل قانون “دی نیشنل انوسٹگیشن ایجنسی ایکٹ 2008” کے تحت عمل میں آیا، این آئی اے کو ملک کی سب سے پریمیئر ایجنسی کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مخصوص مراعات سے نوازا گیا۔ این آئی اے کا مقصد ایک ایسی ماہر اور قابل ایجنسی کا قیام تھا جو ایمانداری اور ماہرانہ صلاحیت کی بنیاد پر مقدمات کی تفتیش کرے، تمام شواہد و ثبوت کو باریک بینی کے ساتھ اگزامن کرے، سچ کو سامنے لائے، شروعاتی دور میں تو این آئی اے نے عوام کا بھروسہ جیتا لیکن اپنے طریقہ کار کو لے کر سوالات کے گھیرے میں گھرتی ہوئی ملک کی اہم ترین ایجنسی اپنا بھروسہ قائم کرنے میں ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے، وہ مقدمات جن میں شکایت کنندہ سے لے کر تفتیشی افسران تک یو اے پی اے کی دفعات کا مطلب و مقصد عدالت کو بتانے میں ناکام رہے لیکن این آئی اے صوبائی ایجنسیوں کی ان کمزور چارج شیٹ کو صحیح ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہی ہے، تفتیش میں شفافیت ہی انصاف کا پہلا اور سب سے بنیادی تقاضا ہے۔
این آئی اے قانون کی دفعہ 11 کے تحت این آئی اے کے ذریعے تفتیش کئے گئے مقدمات کی سماعت کے لئے این آئی اے اسپیشل عدالت کا قیام عمل میں آئے گا، جب کہ صوبائی ایجنسیوں کے تحت اگر تفتیش ہوئی ہے تو این آئی اے ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت صوبائی حکومت اسپیشل کورٹ قائم کریں گی، اس اسپیشل عدالت کے ذریعے ہی ان مقدمات کی سنوائی ہوگی، اسپیشل کورٹ کا پہلا مقصد ہوتا ہے کہ سماعت تیز رفتار ہوگی، ٹرائل جلد سے جلد مکمل ہوگا، یہی وجہ ہے کہ این آئی اے ایکٹ کی دفعہ 19 کے تحت این آئی اے کے مقدمات کی سنوائی روز بروز ہوگی، دیگر مقدمات پر این آئی اے کے مقدمات کو فوقیت بخشی جائے گی، تاکہ مقدمات کے تصفیہ میں تاخیر نا ہو اور ملک کے خلاف ہونے والی مبینہ سرگرمیوں اور سازشوں کے اوپر سر پردہ اٹھایا جاسکے، گنہگاروں و ملک دشمن عناصر کی بروقت نشاندہی ہوسکے نیز ان کو سزا دی جاسکے لیکن ہم اگر ملک کی راجدھانی دہلی میں این آئی اے کے مقدمات پر نظر ڈالیں نیز این آئی اے اسپیشل عدالت میں زیر سماعت مقدمات کا جائزہ لیں تو ایک ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات جنم لینے شروع ہوجاتے ہیں۔
2008 میں این آئی اے قانون پارلیمنٹ پاس کرتی ہے، 17 دسمبر 2008 کو لوک سبھا میں بحث کے دوران مرکزی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ “ان الزامات میں مقدمات برسہابرس تک زیر التوا رہتے ہیں، این آئی اے کے مقدمات کی سماعت روزانہ کی جائے گی تاکہ مقدمات کو متعینہ وقت میں ختم کیا جاسکے”۔ 18 دسمبر 2008 کو راجیہ سبھا میں بحث کے دوران وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ “ این آئی اے ایکٹ میں اسپیشل عدالت کی تجویز ہے جو کہ ایک فاسٹ ٹریک کورٹ ہوگی اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔” 2019 میں این آئی اے ایکٹ ترمیم کو لے کر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کے دوران وزارت داخلہ نے 15جولائی 2019 کو کہا کہ “پروسیجر کو آسان کیا جارہا ہے کیونکہ ہماری سرکار چاہتی ہے دہشت گردوں کو قانون کے مطابق جلد از جلد سزا دی جاسکے” مزید یہ کہ “این آئی اے کے مقدمات آتے ہی دیگر تمام مقدمات اسپیشل کورٹ سے ہٹ جائیں گے اور دیگر عدالتوں میں منتقل کردیے جائیں گے”۔
2009 میں این آئی اے کا قیام عمل میں آتا ہے اور این آئی اے کے قیام کے ساتھ ہی این آئی اے اسپیشل عدالت کا قیام بھی عمل میں آجاتا ہے، دہلی میں این آئی اے ہیڈکوارٹر واقع ہونے کی وجہ سے ملک بھر کے اہم واقعات اور حادثات پر دہلی ہیڈکوارٹر میں قائم این آئی اے پولیس اسٹیشن (تھانے) میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور دہلی پٹیالیہ ہاوس کورٹ کمپلیکس میں موجود نوٹیفائڈ این آئی اے اسپیشل عدالت میں ٹرائل چلتا ہے، گزشتہ 13 برسوں میں این آئی اے ایک بھی کیس کا ٹرائل مکمل کرانے میں پوری طرح ناکام رہی ہے، 2011 کے ایک اہم مقدمے میں سپریم کورٹ کے تیز رفتار کاروائی کے حکم کے باوجود تقریبا 12 سالوں کے بعد بھی چارج فریم نہیں ہوسکے، یہ سست رفتار سماعت دستور ہند کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی تو کرتا ہی ہے لیکن اس کے نتائج پر اگر غور کریں تو یہ ملک میں مروجہ نظام قانون کی بنیادیں کھوکھلی کررہاہے۔
این آئی اے مقدمات میں شرح سزا بہت زیادہ ہے، اب تک دہلی میں کل 231 مقدمات این آئی اے نے درج کئے ہیں، جس میں سے 143 مقدمات کی ابھی تفتیش جاری ہے، 38 مقدمات میں مزید تفتیش جاری ہے، 9 مقدمات میں تفتیش مکمل ہوچکی ہے، 6 مقدمات میں کلوزر رپورٹ داخل ہوئی ہے، 12 مقدمے ٹرائل کے مرحلے میں ہیں، 6 مقدمات میں جزوی فیصلہ ہوچکا ہے جبکہ 14 مقدمات میں فیصلے سنائے جاچکے ہیں، یعنی جزوی اور کلی فیصلے کے زمرے میں آنے والے کل 20 مقدمات میں ملزمین سماعت میں ہونے والی تاخیر اور دیگر مجبوریوں یا دباو میں گناہ قبول کرچکے ہیں، ان اعداد و شمار کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ این آئی اے نے کرمنل جسٹس سسٹم میں ایک ایسا نیا ٹرینڈ رائج کردیا ہے جس میں الزامات سخت ترین دفعات کے تحت درج ہوتے ہیں، ضمانت دینے سے قانون منع کردیتا ہے، پانچ سے سات برس کی ممکنہ سزا والی دفعات میں دسیوں سال گزرنے کے بعد بھی چارج فریم نہیں ہوتے، ملزمین کو گناہ قبول کرنے کو مجبور کردیا جاتا ہے اور انصاف کا خون ہوجاتا ہے، 2015 کے ایک مقدمے میں کل 16 ملزمین تھے اور تمام ملزمین عدلیہ کی سست رفتاری اور کالے قانون کے غلط استعمال سے ہار کر گناہ قبول کرنے کو مجبور ہوگئے، یہ ایک نازک لمحہ فکریہ ہے پورے سماج کے لئے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)