کلیم الحفیظ۔دہلی
تاریخ کے مختصر دور کو چھوڑ کر عورت ہمیشہ مظلوم رہی ہے۔مذہب کے نام پر بھی عورت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ۔دین اسلام نے جو حقوق عورت کو عطا کیے تھے اور رحمۃ العٰلمین نے جس مقام بلند پر عورت کو فائز کیا تھا ،مسلمانوں نے بھی ان تعلیمات پر کما حقہٗ عمل نہ کرکے خود کی بھی رسوا ئی کا سامان کیااور دین اسلام کی رسوائی کا سبب بھی بنے ۔ آسمانی دین کے نام پر بقیہ مذاہب جو آج موجود ہیں ان میں تو عورت کو انسانی درجے سے بھی گراد یا گیا ہے۔عورت پر ظلم و ستم مذاہب کی تحریف شدہ اور غیر انسانی تعلیمات کا نتیجہ بھی ہے۔لیکن موجودہ جمہوری معاشرے میں جہاں گرام پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک اور ایک چپراسی سے لے کر اعلیٰ مناصب تک عورت کی رسائی ہوچکی ہو۔جس نظام کا دعویٰ ہو کہ اس نے عورت کو مساوات کاحق دے کر مرد وں کے برابر لاکر کھڑا کردیا ہے۔اس نظام میں اگر عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک اختیار کیا جاتا ہے تو تعجب ہوتا ہے۔زمانہ جس قدر ترقی کررہا ہے اسی رفتار سے جرائم میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ہمارا ملک بھارت اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی ترقی یافتہ ہے۔’’بیٹی بچائو اور بیٹی پڑھائو‘‘ اور ’’میرا ایمان ناری سمان‘‘ کے نعروں کے بعد خواتین کی عصمت دری اور ان پر ظلم و ستم میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔خواتین کے ساتھ اغوا ،زنا بالجبر اور پھر دردناک قتل،یہ سارے مراحل آپ کو ہر کیس میں نظر آجائیں گے ۔آپ یہ بھی پائیں گے کہ متاثرہ خاتون کا تعلق دلت،بالمیکی یا مسلمان طبقے سے ہوگا۔ظالم اعلیٰ ذات کا ہوگا اور حکمراں جماعت سے اس کے رشتے ہوں گے۔
خواتین پر ظلم و ستم کے کئی اسباب ہیں ۔جن پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔سب سے پہلا سبب میرے نزدیک جیسا کہ میں نے اپنے دوسرے جملے میں ہی اشارہ کیا کہ مذہب کے نام پر عورتوں سے متعلق جو نظریات سماج میں پائے جاتے ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔جس دھرم میں عورت کا شمار جانوروں کے بعد آتا ہو،جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہو،یا جسے وراثت میں تقسیم کیا جاسکتا ہو،جہاں اسے گناہوں کی دیوی اور پاپ کی جننی کہا جاتا ہو،جہاں اس کی شکل دیکھ لینے سے نیکیاں اکارت ہوجاتی ہوں،جہاں عورت پر جنت سے مکلوانے کا الزام ہو۔ اس مذہب اور کلچرکے ماننے والے مردوں سے عورت کے احترام کی امید رکھنا فضول ہے۔اس پر مزید یہ کہ اگر اس عورت کا تعلق مسلم، دلت اور شودر طبقے سے ہو تب تو اعلیٰ ذات کے مردوں کے لیے وہ ہر طرح حلال ہے۔عصمت دری کی شکار خواتین کی 90فیصد تعداد اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔بھارت جیسے دھرم پردھان دیش میں کسی دھرم کی یہ تعلیمات کہیں نہ کہیں اپنا اثر ضرور دکھاتی ہیں۔مسلم بچیوں کے ساتھ یہ درندگی بیشتر مقامات پر اکثریتی فرقے کی طرف سے ہی ہوتی ہے ،بہت کم معاملات ایسے ہیں جہاں درندوں کا تعلق مسلمانوں سے ہے ۔لیکن مسلمانوں کے تعلق سے یہ بات لائق اطمینان ہے کہ عورت کے ساتھ زیادتی کی حمایت ان کا دین نہیں کرتا۔
دوسرا بڑا سبب ملک میں قانون نافذ کرنے والے اور فیصلہ کرنے والے اداروں کا کرپشن ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی پولس کرپشن میں دنیا میں نمبر ایک ہے۔یہاں بڑے سے بڑا مجرم پیسے دے کر چھوٹ جاتا ہے۔یہاں ذرا سے لالچ میں بے گناہوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے،یہاں حکمراں جماعت کے نیتائوں کے دبائومیں پولس اپنے فرائض سے منھ موڑ لیتی ہے۔جب کسی ملک میں قانون کے محافظ ہی راہزن بن جائیں تو اس ملک میں اس طرح کے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔آپ جس کیس کو چاہیں اٹھا کر دیکھ لیں ،اس میں پولس FIRہی لکھنے پر تیار نہیں ہوگی،لکھے گی تو مجرم کو بچنے کا راستا دے گی،متاثرین کو بھی مقدمات میں پھانس لے گی،انھیں ڈرائے اور دھمکائے گی۔کسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچ بھی گیا تو گواہ نہیںملیں گے ۔عدالتی نظام کی پیچیدگیاں ،مقدمات کے بروقت فیصلے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ،انصاف میں تاخیر مجرموں کے حوصلے بڑھاتی ہے۔ہر کسی کا مقدر نربھیا جیسا نہیں ہوتا کہ سارا ملک اس کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور پھر عدالت کو انصاف پر مجبور ہونا پڑے۔بدقسمتی یہ ہے کہ نربھیا کے زمانے میں جو لوگ اس کو انصاف دلانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے وہی لوگ آج حکومت میں ہیں اور ان کے دور اقتدار میں ہرروز ایک نربھیا ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
ایک سبب ہمارا تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام بھی ہے ۔پورے نصاب تعلیم میں انسان دوستی،جنس مقابل کا احترام،عزت و عصمت کی حفاظت کے عنوان پر کوئی کتاب نہیں ہے ،ہے بھی تو پڑھائی نہیں جاتی۔اس کے بجائے جنسی خواہشات میں اضافہ کرنے والے اسباب فراہم ہیں،مثال کے طور پر مخلوط نظام تعلیم،یونیفارم کے نام پر عریانیت،کلچرل پرگرام کے نام ڈانس،بیشتر اسکولوں میں مرد اساتذہ کے خواتین اساتذہ کے معاشقے وغیرہ۔نہ وہ اساتذہ ہیں جو اپنے طلبہ کو اخلاقی اقدار سکھاتے تھے،نہ وہ والدین ہیں جو اپنے بچوں پر نظر رکھتے تھے ۔نظام تعلیم کی اس خرابی نے انسانیت کو حیوانیت کے مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔
دھرم ،ذات اورپارٹیوں کی عصبیت نے بھی مجرموں کے حوصلے بلند کیے ہیں ۔ جب انصاف اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دھرم اور ذات دیکھ کر کارروائی کرتے ہوں ،جہاں حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے درمیان عدل کے پیمانے بدل جاتے ہوں ،وہاں سب سے پہلے جو چیز غیر محفوظ ہوتی ہے وہ انسان کی جان ہے ،انسانوں میں چونکہ عورت کمزور ہوتی ہے اس لیے سب سے زیادہ مظلوم بھی وہی ہوتی ہے۔مجرم اگر حکمراں جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو اس پر مقدمات قائم ہی نہیں کیے جاتے ،کسی دبائو میں آکر پولس FIRلکھنے پر مجبور بھی ہوتی ہے تو دفعات ہلکی کردی جاتی ہیں۔اس اندھیر نگری میں کبھی کبھی تو گناہ گار کے بدلے بے گناہ جیل بھیج دیے جاتے ہیں۔
جرائم میں اضافہ خاص طور پر خواتین کے ساتھ جرائم میں اضافہ کا ایک سبب میڈیا بھی ہے ۔میڈیا بھی دو حصوں میں منقسم ہے ایک وہ گروہ ہے جسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،یہ گروہ بڑا بھی ہے اور مضبوط بھی،یہ وہی کچھ دکھاتا اور لکھتا ہے جو حکومت چاہتی ہے۔دوسرا گروہ جو حکومت کی سرپرستی سے محروم ہے ۔وہ بہت چھوٹا ہے ۔اس کی آواز دب جاتی ہے۔یا دبا دی جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ملک کے سارے ستون میڈیا،انتظامیہ،عدلیہ مجرم کی حوصلہ افزائی کرنے میں مصروف ہوںتب آپ کی بہو بیٹیاں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہے۔کیا آئین میں درج کردینے سے خواتین کو تحفظ اور برابری کے حقوق حاصل ہوسکتے ہیں؟کیا سڑکوں ،بسوں ،اور آٹو رکشہ پر نعرے لکھ دینے سے عورت کی عزت و عظمت کو باقی رکھا جاسکتا ہے؟کیا مہیلا دیوس منالینے سے عورت محفوظ ہوجاتی ہے؟یا اس کے لیے ہمیں اپنے ذہن ،دل اور دماغ کی تربیت کرنا ہوگی۔جہاں عورت کے بارے میں برے اور گندے خیالات پرورش پاتے ہیں۔کیا ہمیں اپنے نصاب تعلیم میں خواتین کی حرمت و تقدس پر مبنی اسباق کو شامل نہیں کرنا چاہئے؟کیا ہمیں اپنے مخلوط نظام تعلیم اور دفاتر میں مخلوط سوسائٹی پر غور نہیں کرنا چاہیے؟خواتین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس ان کی جان سے زیادہ ان کی عزت ہے۔خواتین کو ان مرددانشوروںسے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جوان کی آزادی کی تحریک اپنے دل و نگاہ کی تسکین کے لیے چلاتے ہیں۔انھیں خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔جب ایک ایسی لڑکی جو خود دوسروں کی حفاظت کی ٹریننگ لے چکی ہو ،اس کو ایک ایسے ظالم کا شکار ہوسکتی ہے جو خود قانون کا محافظ ہو تو باقی عام لڑکیوں کی حفاظت کا سوال بے معنیٰ ہے ۔جب انسانیت کے محافظ ہی عزت لوٹنے اور جان لینے پر اتر آئیں تو راہ چلتے آوارہ لڑکوں سے کسی قسم کی اخلاقیات کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ضروری ہے کہ اہل اقتدار ان پالیسیوں پر از سر نو غور کریں جن کی وجہ سے ملک میں فحاشی اوربے حیائی میں اضافہ ہورہا ہے۔قانون کے محافظ اور عدل و انصاف کے علم بردار بھی جائزہ لیں کہ آخر مجرموں کے حوصلے کیوں بلند ہورہے ہیں؟اہل حکومت یہ نہ سوچیں کہ ان کی بچیاں محفوظ ہیں ۔جب بھیڑیوں کے منھ کو انسانی خون لگ جاتا ہے تو وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے مالک پر بھی حملہ کردیتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)