معروف صحافی تولین سنگھ کا تجزیہ
وزیر اعظم نریندر مودی کی جھوٹی تعریف کرنے کی دوڑ میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیتیرتھ سنگھ راوت کاجڑگیا ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کوبھگوان بتاتے ہوئے ان کا موازنہ شری رام اور شری کرشنا سے کیا ہے۔بی جے پی میں آگے بڑھنے والے لوگوں میں چاپلوسی بھرے بیانات اب ان کی خاصیت بن چکے ہیں۔ نریندر مودی کو ایسی چاپلوسی سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
معروف صحافی تولین سنگھ انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں لکھتی ہیںہندوستان میں امیر غریب اور پڑھے لکھے لوگوں کو مساوی طور پر ووٹ ڈالنے کا حق اس وقت ملا تھا جب لوگ راجے رجواڑےکے ساتھ انہیں بھگوان مانتےرہنے کے عادی تھے۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ امریکہ جیسے ممالک میں خواتین کو ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا پڑا۔ انگلینڈ میں ان پڑھ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا۔ اس پس منظر میں نیتائوں کوبھگوان کا درجہ دینا جمہوریت کی توہین کرنا ہے۔
تولین سنگھ لکھتی ہیں کہ نریندر مودی نے جتنے کام کئے ہیں ان کا تذکرہ ہی ان کی تعریف کرنے کے لئے کافی ہے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے نجکاری کا عزم ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ صرف آئی اے ایس ہی اس نظام کو چلا سکتا ہے۔ صفائی مشن ،اوجولایوجنا کی کامیابی ان کی بڑی کامیابی ہے۔ جل شکتی مشن بھی ایسا منصوبہ ہے جو ناممکن لگتا تھا لیکن نریندر مودی اس کو ممکن بنا رہے ہیں۔ ایسے میں نریندر مودی کو جھوٹی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔
انتخاب میں بنگال اپنی خصوصیت کھودی:انڈین ایکسپریس میں سجن کمار کا مضمون
سجن کمار نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے کہ جن سیاست کی شناخت مغربی بنگال میںہورہی ہے۔اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ بی جے پی اور ٹی ایم سی بنگال کی خصوصیت کو ختم کر دینے کی سیاست کر رہی ہیں۔ مہیشیا سمیت تین ذاتوں کو او بی سی کی فہرست میں شامل کرنے کا وعدہ اس کی تازہ مثال ہے جس کے بارے میں ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ٹی ایم سی منشور کو چوری کیا ہے۔
2011 میں بائیں بازو کی حکومت کےجانے کے بعدسے ریاست میں ایک نئے قسم کا بدلائو شروع ہوا۔ ممتا بنرجی کا کرشمہ اور بائیں بازو مخالف ماحول اس بدلائو کی اصل وجہ تھے۔ نکسلی ، متضاد نظریات کے حامل لوگ ، مرکزی دھارے میں شامل ، دلت ، مسلمان اور شناخت کے دیگر اقسام سے وابستہ افراد بھی اس تبدیلی کی وجہ رہے۔ٹی ایم سی نے طبقاتی بنیاد پر سیاست کی جگہ ذات پات اور برادری کی سیاست شروع کی۔ زبان یا ثقافت کو تنگ فرقہ وارانہ ڈھانچے میں ڈھالنا شروع ہوا۔ گورکھا برادریوں نے الگ بورڈ بناکر گورکھا کمیونٹی کو سہلایاگیا۔ نمسودرا دلت متوعہ مہاسنگھ کو نادیہ اور شمالی 24 پرگنا اضلاع میں لبھایاگیا۔ امام اورموذن کو الاؤنس دیئے گئے۔ کانگریس اور بائیں بازو سےصدیق اللہ چودھری ، فرورہ شریف کے پیرزادہ طہ صدیقی جیسے مذہبی افرادکو متوجہ کیاگیا۔ اس طرح کے اقدامات سے ٹی ایم سی نے بنگال میں بی جے پی کے لئے سیاسی طور پر ابھرنے کا ایک موقع پیدا کیا۔
مسابقت کی سیاست میںالجھ کر ممتا نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے پجاریوں کے لئے بھتہ اور درگا پوجا پنڈالوں کے لئے 50 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔ اس طرح سے عوامی فلاح و بہبود کی ترجیح ختم ہو گئی۔ آج بنگال میں این آر سی اور سی اے اے کا مطلب بنگلہ دیش سے غیرقانونی دراندازی کو ختم کرنا ہے۔ ہندوشرنارتھی غیر قانونی درانداز نہیں ہیں۔ بی جے پی کی متوا برادری سے پیار محبت ہے۔ ہندوتوا کا نعرہ ہندی بولنے والے لوگوں اور بنگالی ہندو دونوں کولبھا رہی ہیں۔ ان سب کے بیچ بنگال نے اپنی سیاسی شناخت کھودی ہے۔