بنگلورو: (ایجنسی)
کرناٹک ہائی کورٹ نے پولیس کے ذریعہ ایک ملزم کو ہتھکڑی لگانے اور مبینہ طور پر عوام میں پریڈ کرانے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزم شخص کو دو لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ گرفتار کئے گئے کسی ملزم شخص کو عام طور پر ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی۔
ہائی کورٹ نے یہ یقینی کرنے کے لئے کہ گرفتاری کے طریقے کو ریکارڈ کیاجائے، ریاست کےڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو ہدایت دی کہ وہ کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لئے مجاز تمام پولیس افسران کو باڈی کیمرے دستیاب کرائے تاکہ ایسے کیمروں کے ذریعے گرفتاری کا طریقہ ریکارڈ کیاجاسکے ۔
دکن ہیرالڈ کے مطابق عدالت نے یہ بھی کہا کہ کیمرے میں مائیکروفون ہونا چاہیے، تاکہ گرفتاری کے وقت ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا سکے اور یہ آڈیو-ویڈیو ریکارڈ اگلے ایک سال تک محفوظ رکھا جائے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی دھارواڑ بنچ کے جسٹس سورج گووندراج نے اپنے حکم میں کہا کہ ملزمین، زیر سماعت اور مجرموں کو کب ہتھکڑیاں لگائی جا سکتی ہیں اس بارے میں رہنما خطوط جاری کر دیے گئے ہیں۔
جسٹس سورج گووندراج نے اپنے حکم میں کہا، ‘صرف انتہائی ضروری حالات میں ملزم کو ہتھکڑی لگائی جا سکتی ہے۔ جب ایسی ہتھکڑی استعمال کی جاتی ہے تو گرفتار کرنے والے افسر کو ہتھکڑی لگانے کی وجوہات درج کرنی پڑتی ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ زیر سماعت قیدی کو ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کے لیے ہتھکڑیاں لگانے کے لیے پولیس کو ٹرائل کورٹ کی اجازت لینی ہوگی۔
عدالت نے کہا،’اگر اس طرح کی اجازت کے لیے درخواست نہیں دی جاتی ہے اور زیر سماعت افراد کو ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں، تو متعلقہ پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘
درحقیقت، امتحان دینے کے بعد اپنے گھر لوٹ رہے قانون کے طالب علم سپریت ایشور دیوتے کو پولیس نے بیلگاوی ضلع کے چکوڈی تعلقہ کے انکلی کے بازار میں گرفتار کر لیا تھا۔ انہیں ہتھکڑی لگا کر پریڈ کروائی گئی اور ایک پبلک بس میں چکوڈی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔
ایک دوسرے شخص کے ساتھ تنازع میں، سپریت ایشور دیوتے کے خلاف چیک باؤنس ہونے پر Negotiable Instruments Act کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف پانچ فوجداری مقدمات بھی درج کیے گئے تھے اور اس کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا گیا تھا، اسی سلسلے میں اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
سپریت ایشور دیوتے نے پولیس کی اس کارروائی کے لیے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس نے اس فعل کے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے جو پولیس نے خود ریکارڈ کیے تھے۔
دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، تاہم، عدالت نے درخواست گزار دیوتے کی گرفتاری کو برقرار رکھا کیونکہ اس کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ تھا۔ لیکن اس نے دیوتے کو ہتھکڑی لگائے جانے پر اعتراض کیا اور ریاستی حکومت کو اسے معاوضہ کے طور پر دو لاکھ روپے دینے کی ہدایت کی۔
عدالت نے درخواست گزار کو مجرم افسر سے معاوضے کی رقم وصول کرنے کی بھی آزادی دی ہے۔
اپنے حکم میں جسٹس گووندراج نے کہا کہ جب بھی کسی ملزم کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو یہ عدالت کا فرض ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ آیا ملزم کو ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔ اگر عائد کیا جاتا ہے، تو عدالت کو ’اس طرح کی ہتھکڑیاں لگانے کی وجوہات معلوم کرنا ہوں گی اور قانونی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔‘
بتا دیں کہ اس سال فروری میں جے این یو کے طالب علم کارکن عمر خالد کو ہتھکڑیوں میں دہلی کی ککڑڈوما کورٹ میں پیش کیا گیا تھا، جو عدالت کے دو حکموں کے خلاف تھا۔ ایک حکم جنوری کا تھا جب چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نے خالد کو بغیر ہتھکڑیوں یا بیڑیوں کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور دوسرا حکم ایڈیشنل سیشن جج کا تھا جنہوں نے خالد کو ہتھکڑیوں میں پیش کرنے کی دہلی پولیس کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
موجودہ کیس میں، عدالت نے نچلی عدالتوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ جہاں تک ممکن ہو، زیر سماعت افراد کو عدالت میں پیش ہونے سے بچنے کے لیے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہونے دیا جائے۔