دہلی: پلیسس آف ورشپ ایکٹ معاملہ میں صدرجمعیۃ مولانا محمود مدنی ودیگر کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعرات کو ملک بھر کی سول عدالتوں کو عبادت گاہوں کی ملکیت اور عنوان کو چیلنج کرنے والے مقدموں پر کارروائی کرنے سے روک دیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاہم یہ ہدایت دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کارروائی کا حکم دیا جائے گا۔ زیر التوا مقدمات میں، اگلی سماعت تک سول عدالتوں کے ذریعہ سروے کے احکامات سمیت کوئی موثر عبوری احکامات یا حتمی احکامات نہیں دیے جا سکتے ،” اس میں وارانسی میں گیانواپی تنازعہ، متھرا میں کرشنا جنم بھومی مندر تنازعہ اور کئی دیگر شامل ہوں گے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اس طرح کے مقدمے کم از کم 10 مقامات پر زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے عبادت گاہوں کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی رٹ درخواستوں کی سماعت کی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ورشپ ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اب چار ہفتے بعد سماعت ہوگی۔ اس مدت کے دوران اس قانون کو چیلنج کرنے کے لیے مزید کوئی درخواست دائر نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جب تک سپریم کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے، تب تک کوئی بھی عدالت حتمی حکم جاری نہ کرے۔ نیز اب کوئی عدالت یعنی نچلی عدالتیں کوئی موثر حکم نہیں دیں گی۔ وہ سروے کے حوالے سے بھی کوئی حکم نہیں دیں گی۔
سی جے آئی سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ اس کی سماعت کر رہی تھی۔ درخواست میں ورشپ ایکٹ 1991 کے سیکشن 2، 3 اور 4 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سی جے آئی سنجیو کھنہ نے کہا کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت کا موقف جاننا بہت ضروری ہے۔ ۔ مرکزی حکومت جلد ہی اس معاملے میں حلف نامہ داخل کرے۔
سپریم کورٹ نے مرکز اور دیگر فریقین سے کہا سپریم کورٹ (ایودھیا) کے 5 ججوں کی بنچ نے کچھ اصول طے کیے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سول عدالت ان کے خلاف جا سکتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ دشینت داوے اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں اور ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی موجود تھے ۔ ۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ مرکز کے جوابی حلف نامے (counter affidavit) کی کاپی کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے تاکہ کوئی بھی شخص اسے ڈاؤن لوڈ کر سکے۔اس معاملے کی اصلی درخواست اشونی کمار اپادھیائے بنام یونین آف انڈیا کے عنوان سے 2020 میں دائر کی گئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے مارچ 2021 میں مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔۔آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بھی ایک رٹ پٹیشن درج کی گئی، جس میں 1991 کے ایکٹ کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے تحفظ کے لیے مداخلتی درخواستیں دائر کی ہیں، جن میں سی پی آئی (ایم)، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈی ایم کے، آر جے ڈی ایم پی منوج جھا اور این سی پی (شرد پوار) کے ایم پی جتیندر اوہاد شامل ہیں۔
••مولانا محمود مدنی کا ردعمل
عرضی گزار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن و امان کا تحفظ کرنا ہے، ہمیں ماضی میں جھانکنے سے زیادہ اس ملک کے مستقبل کی تعمیر اور اس تعمیر میں سبھی طبقوں کی یکساں نمائندگی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسجد مسجد مندر تلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اور اتحاد کے دشمن ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ فرقہ پرستی کی مخالفت کی ہے اور اس نے ان دروازوں کو بند کرنے کے لیے بھی ارباب اقتدار کو بارہا متوجہ کیا ہے جن راستوں پر فرقہ پرستی کا ناگ پھن مارے کھڑا ہے ۔ یہ جمعیۃعلماء ہند کی ہی کوشش تھی کہ ۱۹۹۱ میں ایکٹ بنا اور ان شاء اللہ ہماری کوشش سے یہ ایکٹ نافذ العمل بھی ہوگا۔
••عبادت گاہوں کا قانون 1991 کیا کہتا ہے؟
تمام عبادت گاہیں 15 اگست 1947 سے پہلے جیسی حالت میں رہیں گی۔ عبادت گاہوں کو عدالت یا حکومت تبدیل نہیں کر سکتی۔ متعلقہ قانون میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو موجود عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت وہی رہے گی جو اس دن تھی۔ یہ کسی بھی مذہبی مقام پر دوبارہ دعویٰ کرنے یا اس کے کردار کو تبدیل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کرنے سے منع کرتا ہے۔