تحریر:عقیل عباس جعفری
اردو ادیبوں میں ابن صفی ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ شروع شروع میں ادب کے سکہ بند ناقدین نے انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھا مگر پھر سبھی ان کے قلم کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ ابن صفی کا قلمی سفر 28 سال پر محیط ہے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے ڈھائی سو کے لگ بھگ ناول تخلیق کیے جو جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
جنوری سنہ 1952 میں جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’دلیر مجرم‘ اور اگست 1955 میں عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ شائع ہوئے۔
یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ ان ناولوں میں انھوں نے ایک نئی دنیا ایجاد کی جس میں نت نئے طریقوں اور ایجادات کی مدد سے جرائم کا خاتمہ کیا جاتا تھا۔
سائنس فکشن کے تعلق سے ممتاز مصنف عرفان جاوید اپنی کتاب ’عجائب خانہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’حیران کن طور پر مغرب میں بہت سے ناول اور افسانے سائنسی ایجادات کا باعث بنے ہیں۔ ان ناولوں سے نئے خیالات نے جنم لیا جن سے نئے امکانات کی کونپلوں نے سر اٹھایا اور چند شوریدہ سروں نے خیال کو ٹھوس شکل دینے کی ٹھانی اور کامیاب ٹھہرے۔ داستان انسان درحقیقت شوریدہ سروں کی داستان ہی تو ہے۔
مارٹن کوپر نے 1970 کی دہائی میں پہلا موبائل فون ایجاد کیا۔ وہ اس ایجاد کا سہرا ایک ناول پر بننے والی ٹی وی سیریل سٹار ٹریک کو دیتے ہیں۔ اس امریکی سیریز نے ایک پوری نسل (بشمول پاکستانی نسل) کو متاثر کیا تھا۔ اس میں کئی نئے معروف ہونے والے آلات میں ایک آلہ ’Communicator‘ تھا۔ یہ بے تار فون تھا اور جدید موبائل فون کا جد امجد بھی۔
فرانسیسی مفکر اور ناول نگار جولز ورن کو ’بابائے سائنس فکشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے معروف ناولوں میں ’زمین کے بیج تک کا سفر‘، ’دنیا کے گرد 80 روز میں‘ اور ’سمندر کے نیچے ہزار لیگز (فاصلہ پیما)‘ وغیرہ شامل ہیں۔
جولز ورن نے زیر آب چلنے والے ایک ایسے بحری جہاز کا تصور دیا جو بجلی سے چلتا تھا۔ اس زیر آب جہاز کا نام ’نوٹیلس‘ رکھا گیا تھا۔ اس تصور نے سائمن لیک نامی لڑکے کو اتنا متاثر کیا کہ وہ ایسی ایجاد کرنے پر تل گیا اور بالآخر دنیا کی پہلی آبدوز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سائمن نے اس کا نام آرگوناٹ رکھا۔
جولز ورن نے سنہ 1865 کے ایک ناول میں انسان کے چاند پر اترنے کی تفصیلات کی حیران کن طور پر درست تصویر کشی کر دی تھی۔ حقیقی طور پر انسان اس ناول کے تحریر کیے جانے کے 104 برس بعد چاند پر اپنے قدم رکھنے میں کامیاب ہوا تھا۔ چاند پر کشش ثقل زمین کی نسبت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان چاند پر زمین کی طرح قدم جما نہیں پاتا۔
جولز ورن سنہ 1865 میں دیگر تفصیلات کے علاوہ تحریر کرتے ہیں کہ ’ان تینوں کو محسوس ہوا کہ ان کے بدن وزن سے محروم ہو گئے ہیں۔ اگر وہ اپنے بازو بڑھا دیتے تو بھی گرنے کا خدشہ نہ تھا۔ ان کے سر ان کے کندھوں پر ہلتے تھے، ان کے قدم جمتے نہ تھے اور وہ خمار آلودگی کے شکار آدمیوں کی مانند استحکام سے محروم تھے۔‘
سنہ 1909 کا واقعہ ہے۔ ابھی ٹیلی فون بھی عام نہ ہوئے تھے۔ معروف مفکر و ادیب مارک ٹوئن نے اپنی کہانی ’1904 کے لندن ٹائمز سے‘ میں ایک ایجاد کا خاکہ پیش کیا جسے ’ٹیلی کیٹرو سکوپ‘ کا نام دیا۔ وہ ایجاد ٹیلی فون سسٹم کے ذریعے ایک ورلڈ وائڈ نیٹ ورک (www) قائم کرتی ہے، جس کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یوں مارک ٹوئن نے انٹرنیٹ کا ابتدائی تصور پیش کیا۔
مغربی سائنس فکشن میں ایسی بے شمار ایجادات کا تذکرہ وضاحت کے ساتھ ملتا ہے جو بعدازاں معرض وجود میں آئیں۔ گویا ذہن نارسا کو اسی توسط سے رسائی میسر آئی۔ ان میں خودکار چہرہ شناسی (Automated Face Recognition) جسے آج کے ٹچ سکرین فون تک میں عام کر دیا گیا ہے، ناول ’ڈارون کی اولاد‘ از گریگ بیر میں موجود ہے۔ اسی طرح دیگر ایجادات میں شامل، ٹچ ٹیبلیٹ، ڈرون، ای پیپر اور دیگر بے شمار آلات و اشیا کے ابتدائی خیال فکشن میں پیش کر دیے گئے تھے۔
ابن صفی کے سوانح نگار راشد اشرف نے اپنی کتاب ’ابن صفی، شخصیت اور فن‘ میں ابن صفی کی تحریروں پر مغربی اثرات کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’ابن صفی نے اپنے ناول ’زمین کے بادل‘ کے پیش لفظ میں اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ ان کے (اس وقت تک کے لکھے) آٹھ ناول مغرب سے مستعار لیے گئے تھے۔
’میرا پہلا ناول دلیر مجرم تھا۔ پہلا ناول تھا اس لیے کسی بیرونی سہارے کی بھی ضرورت تھی لہٰذا اس کا مرکزی خیال مغربی ادب سے لیا گیا لیکن حمید اور فریدی میرے اپنے کردار تھے۔ اس کے علاوہ جاسوسی دنیا میں ایسے ناول اور بھی ہیں جن کے پلاٹ میں نے انگریزی سے لیے تھے مثلاً پراسرار اجنبی، رقاصہ کا قتل، ہیرے کی کان، خونی پتھر۔ ان پانچ ناولوں کے علاوہ آپ کو میرے 102 ناولوں میں ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جن کا پلاٹ میرا اپنا نہ ہو۔ عمران کے سارے ناول بے داغ ہیں۔‘
’زمین کے بادل‘ کی اشاعت کے بہت برسوں بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام ’آپ جناب‘ کے لیے ریکارڈ کیے گئے انٹرویو میں ابن صفی نے پہلی مرتبہ اپنی تحریروں پر مغربی اثرات کے بارے میں کھل کر بات کی تھی۔ یہ نہایت اہم مکالمہ ذیل میں ملاحظہ ہو:
’ان میں نہ آپ کو کوئی ایسی کہانی ملے گی جس کا پلاٹ انگریزی سے لیا گیا ہو اور نہ کوئی ایسا کردار ملے گا۔ وہ پانچ ناول جن کے پلاٹ میں نے انگریزی سے لیے ہیں، ترجمعے نہیں ہیں۔ ان کی ایک ایک سطر پر میرا دعویٰ ہے۔‘
نجم الحسنین: یہ بتایے کہ آپ کے افکار پر خاص طور سے جاسوسی طرز نگارش پر باہر کے رویے کے کتنے اثرات ہیں؟
ابن صفی: دیکھیے یہ تو طے ہے کہ جاسوسی ناول ہم لوگوں میں باہر ہی سے آیا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ میں نے باہر ہی سے لکھا لیکن میرے ادب پر اس چیز کے اتنے ہی اثرات ملیں گے جتنے کہ معاشرے پر ملتے ہیں۔ اگر میں کسی ایسے طبقے کے بارے میں لکھتا ہوں جس پر مغربیت کا سایہ ہے تو ظاہر ہے اس کی جھلکیاں میری تحریر میں بھی ہوں گی۔ اس کی وجہ سے بسا اوقات لوگ یہ کہتے ہیں کہ صاحب یہ اینگلو اردو ادب پیش کر رہے ہیں، یہ اردو ادب نہیں۔‘
’بھائی! یہ بھی تو دیکھیں کہ میں کس طبقے کی عکاسی کر رہا ہوں۔ جب میں متوسط یا نچلے طبقے کی بات کرتا ہوں تو وہاں مغربیت کی پرچھائیاں تک نہیں ملیں گی لیکن جب کوئی ذات مغرب زدہ ہے اور میں اس کی بات کروں گا تو مغرب کی پرچھائیں ضرور ملیں گی۔‘
راشد اشرف نے محمد اسلم غازی کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جس میں ان سائنسی ایجادات کا تذکرہ ملتا ہے جو ابن صفی کی تحریروں میں موجود ہیں۔
محمد اسلم غازی کے مطابق ’ابن صفی آرٹس گریجویٹ تھے لیکن ان کی قوت متخیلہ کسی سائنسدان سے کم نہیں تھی۔ اپنے ناولوں میں انھوں نے ایسی ایسی محیرالعقول مشینوں اور آلات سے متعارف کرایا تھا جو تیس، چالیس سال بعد واقعی عالم وجود میں آ گئیں۔‘
’مثلاً ساتواں جزیرہ، میں انھوں نے آئیڈنیٹٹی کاسٹ اکوپمنٹ یعنی شناخت ڈھالنے کا آلہ پیش کیا جس کے ذریعے کرنل فریدی چہرے، آنکھوں، ناک اور ہونٹوں وغیرہ کی مختلف ساختوں کو یادداشت کے سہارے یکجا کر کے مجرم کا حلیہ تیار کر لیتا ہے۔ آج کل پولیس اور خفیہ محکمے یہ مشین استعمال کر کے مشتبہ ملزموں کے چہروں کے خاکے روزانہ اخبارات میں شائع کرتے رہتے ہیں۔‘
’انھوں نے کنفیشن چیئر یعنی سچ اگلوانے والی مشین کا تذکرہ اپنے کئی ناولوں میں کیا۔ اسی طرح ’چاندنی کا دھواں‘ میں ابن صفی نے ایک ایسا ٹی وی پیش کیا تھا جس کی تصاویر فضا میں دیکھی جا سکتی تھی۔ تقریباً بیس پچیس سال قبل ایک فرانسیسی کمپنی نے بمبئی کی گڑ گئو چوپاٹی ساحل پر اسی طرح کا ایک شو کیا تھا جس میں ہوا میں تصاویر نظر آتی تھیں۔‘
’اسی طرح زیر لینڈ سیریز کے ایک ناول میں ابن صفی کے تخیل نے تصاویر اور آواز کی طرح انسان کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسمٹ کردیا تھا۔ ممکن ہے کہ سفر کا یہ جدید ترین طریقہ بھی سائنس جلد ہی دریافت کر لے۔‘
راشد اشرف لکھتے ہیں کہ ’چاندنی کا دھواں‘ نامی جس ناول کی بات اسلم غازی نے کی ہے اس میں پیش کردہ تکنیک کو آج کی دنیا میں Hologram Technology کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جاسوسی دنیا کے ناول ’طوفان کا اغوا‘ میں ابن صفی نے فولادمی نامی روبوٹ کو پیش کیا تھا۔ آگے چل کر روس میں اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے کا ذکر خود ابن صفی نے اپنے ایک پیش رس میں کیا تھا۔
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں الیکٹروگس اور فے گراز کا ذکر سنہ پچاس کی دہائی میں کیا تھا۔ اس کے بہت بعد میں الیکٹروگس، لیزر گن کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا جبکہ فے گراز کو ہم اڑن طشتری کہہ سکتے ہیں۔
عمران سیریز کے ناول ’سبز لہو‘ میں ایک شخص پر فائر کیے جاتے ہیں اور اس کے جسم پر موجود لباس میں سے سبز رنگ کا رقیق مادہ بہہ نکلتا ہے۔ فائر کرنے والے اسے کوئی مافوق الفطرت وجود سمجھتے ہیں۔
اس ناول کے کئی برس بعد ہالی وڈ میں Alien نامی فلم بنی تھی جس میں ایلین کا خون سبز رنگ کا دکھایا گیا تھا۔ بعدازاں امریکی ٹی وی سیریل X-Files میں بھی کئی مقامات پر یہی بات دہرائی گئی۔ یقیناً یہ ایک اتفاق ہو سکتا ہے مگر اگر یہ اتفاق بھی ہے تو دلچسپ ہے۔
X-Files کے تخلیق کار ’کرس کارٹر‘ ایک انتہائی ذہین انسان ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ کرس کارٹر کی تحریر اور ابن صفی کے ناولوں میں کئی مقامات پر تکنیک کے اعتبار سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔
کلوننگ جدید دنیا کی ایک خطرناک ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے ایک جیسے انسان تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔
اس سے ملتا جلتا تصور ابن صفی نے جاسوسی دنیا کے ناول ’جنگل کی آگ‘ میں سنہ 1960 میں ایک ایسی مشین کو پیش کر کے کیا تھا جس کے ایک جانب تین لاغر انسانوں کو ڈالا جاتا ہے اور دوسری جانب سے ایک طاقتور گوریلا تخلیق پاتا تھا۔
ابن صفی نے عمران سیریز کے ناول ’زلزلے کا سفر‘ کے پیش رس میں اپنے ناولوں میں پیش کی جانے والی سائنسی ایجادات کے بارے میں لکھا تھا: ’دھوئیں کا حصار بالآخر ٹوٹ گیا۔ دھوئیں کے حصار کے اندر کیا تھا؟ کتنی بڑی تباہی کا سامان پروان چڑھ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے آپ اسے بھی طلسم ہوشربائی پرواز تخیل سمجھ کر کچھ دیر مجھ پر ہنس لیں لیکن دس سال کے اندر اندر آپ ایسے ہی کسی تباہ کن حربے کے وجود سے ضرور آگاہ ہو جائیں گے۔‘
’یہ ساری ایجادات جو اس وقت آپ کے معمولات زندگی میں داخل ہو کر رہ گئی ہیں بہت پہلے تخیل پرست آرٹسٹوں کی ’پینک‘ ہی سمجھی گئی ہوں گی لیکن آج آپ انھیں خود برت رہے ہیں۔ تیس سال قبل جب ہالی وڈ نے چاند کے سفر پر فلمیں بنائی تھیں تو امریکہ کے سنجیدہ افراد نے ان کا بے تحاشا مذاق اڑایا تھا لیکن آج سے سے پہلے امریکہ ہی کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ اس کے باسی چاند پر سچ مچ چہل قدمی کر آئے ہیں۔‘
عمران سیریز کے ناول ’شوگر بینک‘ کا پیش رس اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس میں ابن صفی نے سائنسی ایجادات کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی تھی۔ لکھتے ہیں کہ ’آج جبکہ ایک مردہ آدمی کی آنکھیں کسی نابینا کو روشنی بخش سکتی ہیں تو اسے بھی ناممکن نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایک ذہن اپنے تمام تر تجربات سمیت کسی دوسرے جسم میں منتقل کیا جا سکے۔‘
’سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے میں نے ’طوفان کا اغوا‘ نامی ناول میں فولادمی پیش کیا تھا۔
ابھی حال ہی میں روس سے خبر آئی ہے کہ وہاں ’فولادمی‘ تخلیق کر لیا گیا۔ وہ نہ صرف ٹریفک کنٹرول کرتا ہے بلکہ خلاف ورزیوں پر چالان بھی کر دیتا ہے اور اسے کنٹرول کرنے کا طریقہ بھی وہی ہے جو میں نے لکھا تھا۔ میں روس والوں پر چوری کا الزام نہیں عائد کرنا چاہتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی خیال بیک وقت ایک سائنسدان اور کہانی کار کے ذہن میں جنم لے سکتا ہے۔ کہانی کار قلمی تصویر بناتا ہے اور سائنسدان اسے جیتی جاگتی دنیا میں مادی شکل دے دیتا ہے۔‘
ابن صفی کی تخیلاتی سائنسی ایجادات کا ذکر این ای ڈی یونیورسٹی کی سابق اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنے ایک ریسرچ پیپر میں بھی کیا، جسے بزم سائنسی ادب کراچی کی ایک ماہانہ نشست میں پیش کیا گیا تھا۔
اس ریسرچ پیپر میں نائلہ حنا خان نے بطور تمہید لکھا کہ ’انسان ہمیشہ سے آسمان کی طرف رخ کر کے، پرندوں کی طرح پرواز کرنے کا خواب دیکھتا آیا ہے۔ کبھی سیمرغ پر سوار ہو کر تو کبھی الف لیلوی اڑن قالین پر بیٹھ کر۔ لیونارڈو ڈاونسی کی پرانی ڈرائنگز کے مشاہدے سے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ بھی فضا میں انسانی پرواز کے خواب کی تعبیر پانے کی جستجو میں تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کامیابی رائٹ برادران کے حصے میں آئی اور بیسویں صدی عیسوی میں کہیں جا کر ہوائی جہاز ایجاد ہوا۔‘
’آج انسانی شعور کی بلوغت کا دور ہے لیکن انسانی شعور اور لاشعور کو اس منزل تک پہنچنے میں صدیوں کا سفر طے کرنا پڑا اور اس سفر کے دوران حضرت انسان نے محض اپنے تخیل کے زور پر طرح طرح کی ایجادات و اختراعات کر ڈالیں۔ یہ ایجادات ہمیشہ پہلے انسانوں، کہانیوں اور خواب کی شکل یا آرٹ کے نادر نمونوں، ڈرائنگ وغیرہ کی صورت میں صرف ایک خیال، تصور، خواب یا شاہ کار فن ہی رہیں جو آخر کار ترقی کرتے کرتے ایجاد کی حیثیت سے ظہور پذیر ہوئیں۔‘
نائلہ حنا خان نے اپنے اس مضمون میں الیکٹروگس، فے گراز، کلوننگ اور فولادمی نامی ایجادات کا ذکر کیا جن کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’ابن صفی کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں میں دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں کی سیر کروائی کہ جہاں انھوں نے کبھی خود قدم نہ رکھا تھا۔ اس کے باوجود، جب بعدازاں ابن صفی کے قارئین نے وہ جگہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو منظر ویسا ہی پایا جیسا ابن صفی نے اپنے ناولوں میں بیان کیا تھا۔‘
’یہ ان کے تخیل کی پرواز کا کرشمہ تھا، جو آج ’مائنڈ پاور‘ کے ماہرین کے لیے کسی عجوبے سے کم نہیں۔ مثلاً ’ایڈلاوا‘ نامی ناول میں اٹلی کی جھیل ’کومو‘ (Como) کا تذکرہ ہے، جو حقیقتاً ویسی ہی ہے جیسی ان کے ناول میں بتایا گیا۔‘
انڈیا سے شائع ہونے والے رسالے ’سائنس کی دنیا‘ کے سابق مدیر محمد خلیل نے بالکل درست لکھا ہے کہ ’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ابن صفی نے عام قاری کو ادب میں ایک نئی سمت اور تازہ افکار سے متعارف کروایا ہے جس کا سہرا صرف اور صرف ابن صفی کے سر ہے۔‘
’انھوں نے توہمات سے دور ہٹ کر عوام کو سائنسی طریقے سے سوچنے پر مجبور کیا اور اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کی جس کی گرویدہ سماج کے ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ اگر ہم ابن صفی کے ناولوں کا سرسری جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ناولوں میں سسپنس، ایڈوینچر، مزاح، ہر طرح کی تحریروں کے انداز کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔‘
’ان کے ناولوں میں سائنسی فکشن کا انداز بھی بے حد اہم ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ابن صفی ہی وہ ادیب ہیں جنھوں نے اردو میں جاسوسی، سائنس فکشن کی ایک نئی طرح کی ابتدا کی ہے۔ ابن صفی کی کہانیوں کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ان میں بھوت پریتوں اور راکھشسوں کے مصنوعی خیال اور توہم پرستی کو رد کیا گیا ہے اور ہر واقعے کی سائنسی تشریح پیش کی جاتی رہی ہے۔‘
ابن صفی نے اپنے سائنس فکشن کے بارے میں لکھا کہ ’سائنس فکشن لکھنا آسان کام نہیں، پھر بھی میں نے کوشش کی کہ اپنے ذہین پڑھنے والوں کو کسی حد تک مطمئن کر سکوں۔ محیر العقول اور بعیدازقیاس واقعات کا یکجا کر کے کہانی کی شکل دے دینا آسان ہے لیکن ان کا جواز پیش کرنا ہی حقیقتاً اس طلسمی ہوشربا کو سائنس فکشن میں تبدیل کرنا کہلاتا ہے اور تھوڑے وقت میں یہ ایک مشکل کام ہے۔‘
شاید تخیل کی یہی قوت ابن صفی کی کامیابی کا راز ہے جس کی وجہ سے ان کے مداحین اور قارئین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی )