تحریر:روہنی سنگھ
اگر حجاب پہننے یا ہندو تہواروں کے دنوں میں گوشت کھانے یا پھر مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال جیسے مسائل سے آپ کا دل بھر گیا ہو، یا ان کے دب جانے سے اب آپ بس سانس ہی لینا چاہتے ہیں، تو لیجیے تازہ ایشوز حاضر ہیں۔
ہندو قوم پرستوں نے اب یکے بعد دیگرے قدیم یادگاروں اور تاریخی مساجد پر مختلف عدالتوں میں دعوے درج کیے ہیں۔ ان میں تاج محل اور قطب مینار بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے، جب بھارت کا دورہ کیا تھا، تو انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں، جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان خوش قسمت افراد کی صف میں شامل ہو رہے ہیں، جو تاج محل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور پھر زندگی بھر ان لمحات کو کو محسوس کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔
بھارت کا دورہ کرنے والا تقریباً ہر عالمی سیاست دان یا مشہور شخصیت تاج محل دیکھنے کی خواہش کے ساتھ آتا ہے اور اس کو یادگار بنانے کے لیے اس کے سامنے تصویر بناتا ہے۔
تاج محل پر دعویٰ کرنے والے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان رجنیش سنگ نے ایک عدالت سے درخواست کی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو تاج محل کے اندر 22 کمرے کھولنے کی ہدایت کی جائے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ اس کی بنیادیں کسی مندر پر کھڑی تو نہیں کی گئی ہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرست دانشور پی این اوک کی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ تاج محل کی بنیادیں ایک ہندو مندر تیجو محل پر رکھی گئی ہیں۔ فی الحال یہ درخواست عدالت نے مسترد کر دی ہے لیکن صرف اس وقت تک، جب تک کوئی اور جنونی اس کو دوبارہ ایشو نہیں بناتا۔
مجھے یاد ہے کہ 1992ء میں جب بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تو میں اسکول میں تھی۔ اور بھارت کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ کے ہمارے پرسکون قصبے میں فساد جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ اسکول، دفاتر، دکانیں اور بازار عارضی طور پرکئی دن بند رہے۔ جب حتمی فیصلہ 2019ء میں آیا، میں اس وقت تک نئی دہلی میں بطور صحافی کام کر رہی تھی۔ اب یہ بہتر طور پر سمجھنے کے قابل تھی کہ سیکولر ہندوستان نے اس تاریخی فیصلے کی کیا قیمت ادا کی ہے۔
جب بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا تو بہت سے مسلمان دوستوں کی طرح میں نے بھی سوچا کہ آخر معاملہ نپٹ گیا اور پروٹیکشن آف ریلیجز پلیسز آف وورشپ ایکٹ 1991ء سے مسلمانوں کو امید تھی کہ اب ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے کی مزید کوششیں نہیں کی جائیں گی۔
یہ ایکٹ کسی بھی عبادت گاہ کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے اور عبادت گاہ کو 1947ء کی پوزیشن میں برقرار رکھنے کے لئے کہتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں نے بھی سوچا کہ اب ہندوؤں کے ساتھ کوئی قانونی جنگ لڑنے کی دوبارہ ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن تین سال بعد ہندوستان کو ایک بار پھر بابری 2.0 کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ہندو جنونیوں نے ’’ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی، متھرا باقی ہے‘‘ کے نعرے کو حقیقت بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔
وارانسی میں گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ مسجد کے اندر سروے کی اجازت دینے کے لیے عدالتوں میں متعدد عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ ہندو ان عبادت گاہوں کو واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں، جوان کے مطابق صدیوں پہلے مندروں سے مساجد میں تبدیل ہو گئی تھیں۔
ایک اندازے کے مطابق انسانی آبادی 50 ہزار سال سے زیادہ عرصے سے اس سیارے پر قائم ہے۔ اس دوران نہ جانے کتنے تمدن اور تہذیبیں پروان چڑھیں اور جنگوں اور آفات سماوی کی وجہ سے زوال پذیر ہو گئیں۔ نئی تہذیبیں آتی گئیں اور پرانی تہذیبوں کی جگہ لیتی گئیں۔ دنیا میں کہیں بھی اگر آپ کھدائی کریں گے تو کچھ نہ کچھ پرانی تہذیب کی نشانیان ملنا تو لازمی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تاریخ دانوں کے بقول اکثر معروف مندروں کی بنیادیں بدھ عبادت گاہوں پر رکھی گئیں ہیں۔
اگر گیان واپی مسجد یا اس سے ملحق کاشی وشوناتھ مندر کی جگہ کی گہرائی میں کھدائی کی جائے تو اور اگر وہاں بدھ مندروں کے ہونے کے آثار مل جائیں۔ اس صورت میں کیا ہندو ان مقامات کو بدھ مت کے حوالے کر دیں گے، جیسا کہ وہ مسلمانوں سے توقع رکھتے ہیں؟
اب اگر مغل دور حکومت میں واقعی مسجد بنانے کے لیے مندروں کو گرایا گیا تھا۔ لیکن اس کا مطلب اب ہرگز یہ نہیں ہے کہ 21ویں صدی کے عام ہندوستانی مسلمانوں سے اس کا بدلہ لیا جائے۔ اس بات کے بھی کافی شواہد موجود ہیں کہ ان مغل حکمرانوں نے بہت سے مندروں کو گرانٹ اور سرپرستی بھی دی۔
چنانچہ ہندو قوم پرستوں کا عبادت گاہوں یا معروف یادگاروں پر دعویٰ بلا جواز ہے۔ یہاں بھارتی عدالتوں اور ہندو قوم پرستوں کو پاکستان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ لاہور کا سکھ گردوارہ شہید گنج اس کی مثال ہے۔
یہ گردوارہ ایک مسجد ہوا کرتا تھا، جسے شہنشاہ شاہ جہاں نے 1653ء میں تعمیر کروایا تھا۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کے تخت پر قبضہ کیا تو شہید گنج پر سکھ افواج کا قبضہ ہو گیا اور 1799ء میں اسے گردوارہ میں تبدیل کر دیا گیا۔
سکھ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں نے 1855ء میں برطانوی عدالت میں گردوارے کی تحویل کے لیے اپنی پہلی درخواست دائر کی لیکن قانون حد کے تحت مقدمہ ہار گئے۔ مسلمان اگلے سو سالوں میں تین الگ الگ مواقع پر اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے۔ عدالتوں نے قانون حد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ دو صدیوں سے سکھوں کے قبضے میں تھی اس لیے اب اس پر مسلمانوں کا دعویٰ خارج کیا جاتا ہے اور یہ عبادت گاہ اور اس سے ملحق زمین سکھوں کے حوالے کر دی گئی۔
آزادی کے بعد خدشہ تھا کہ پاکستان کی حکومت اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرے گی، کیونکہ شہر میں اب کچھ زیادہ سکھ آبادی نہیں تھی اور اس پر قبضے کے لیے شہر میں کئی خون ریز فسادات رونما ہوئے تھے۔ مگر کسی بھی پاکستانی حکمران یا حکومت نے برطانوی عدالت کے جج کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کو گردوارہ رہنے دیا گیا۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)