تحریر:قمر وحید نقوی
دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟
واضح ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اس طبقے نے عربوں کے وسیع ردعمل کے بعد محسوس کیا کہ انہیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بی جے پی عرب ردعمل پر عجلت میں کارروائی کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو غلط اشارہ دے رہی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ تاہم عربوں کے ردعمل کے بعد مودی حکومت کے پاس ایسا قدم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر حکومت یہ قدم پہلے اٹھا لیتی تو معاملہ نہ بڑھتا۔ یہ حکومت کی طرف سے بہت بڑی غلطی تھی۔ اب ہندوستانی مسلمان اس معاملے میں مظاہرے میں تاخیر کرکے انتقامی غلطی کر رہے ہیں۔
نوپور شرما اور نوین کمار جندل کو دھمکیاں دینے والے کون لوگ ہیں اور کیوں؟ نماز جمعہ کے بعد ملک کے کئی حصوں میں تشدد کیوں ہوا؟ ایسا کرکے، ان لوگوں نے وسیع تر ہندوستانی رائے عامہ کی نفی کی ہے، جو اس معاملے میں ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی تھی۔
اگر ہندوستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عربوں کی حمایت نے اس کا سینہ چوڑا کردیا ہے تو یہ سراسر حماقت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا مفاد صرف اسی میں ہے اور رہے گا کہ وسیع تر ہندوستانی رائے عامہ کی حمایت اس کے ساتھ ہو۔ اس چیز کو سمجھنا ہوگا۔
میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت علمائے کرام یا پرسنل لا ءبورڈ جیسی مذہبی تنظیم کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، مذہبی قیادت کسی سماج کو ترقی کی راہ پر نہیں لے جا سکتی کیونکہ ایسی قیادت بنیادی طور پر قدامت پسند ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کی اس مذہبی قیادت نے مسلسل ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس ذرہ برابر سیاسی شعور اور دور اندیشی نہیں ہے۔ یہ سیاسی غلط فہمی شاہ بانو تنازع، یکساں سول کوڈ، بابری مسجد سمیت تمام مسائل پر کھل کر سامنے آئی ہے۔
اس قیادت نے ہندوستانی مسلمانوں کو مذہبی جذبے کے ہوائی غباروں میں اڑا کر زمینی حقیقت سے منہ موڑدیا، وہ ترقی کے محاذ پر نہ صرف پسماندہ رہے بلکہ ان کی سوچ اور شبیہ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اس قیادت کی بیان بازی نے سنگھ کی حمایت میں مسلسل اضافہ کیا اور اسے نئے دلائل دیے۔
مسلمانوں کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کے لیے اویسی سمیت کچھ کوششیں کی گئیں، لیکن سب ناکام رہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی مذہبی قیادت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا، اسے تبدیل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
دوسرا، صرف مسلمانوں کے نام پر بننے والی پارٹی کو وسیع تر ہندوستانی رائے عامہ کی حمایت کبھی حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے ایسی پارٹی ووٹ کی سیاست میں کچھ نہیں کر سکتی۔ زیادہ تر ایسے لیڈر جلسوں میں پرجوش نعروں اور اشتعال انگیز تقریروں سے تالیاں بجا سکتے ہیں، بس۔
پھر ایسی کوئی بھی پارٹی آخرکار :’جناح سنڈروم‘ کو جنم دیتی ہے اور ہندوتوا طاقتوں کو ہندوؤں میں عدم تحفظ کے احساس کو بھڑکانے کے لیے نئی دلیلیں دیتی ہے۔ ظاہر ہے اس سے مسلمانوں کا کبھی بھلا نہیں ہو سکتا۔ اس کا سیاسی فائدہ ہمیشہ ہندوتوا طاقتوں کو جاتا ہے۔
مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسی قیادت نہیں ہے جو انہیں مذہبی خانے سے نکال کر ان میں نئی سوچ ڈال کر جمہوریت میں ان کا جائز حصہ حاصل کرنے میں رہنمائی کر سکے۔ ہندوتوا طاقتیں اس صورتحال سے خوش ہیں کیونکہ ان کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کا ہی نقصان کیا ہے کیونکہ انہوں نے مسلم قیادت کی جہالت پر تنقید کرکے انہیں سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ ووٹ بینک کی مجبوریاں!
سیکولر مفکرین نے کھل کر ہندو فرقہ پرستی پر تنقید کی لیکن مسلمانوں کے ایسے اقدامات پر بات کرنے سے گریز کیا جب انہیں بولنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس سے ان کے لبرل لیبل کو نقصان پہنچے گا۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے مسلمان زمینی حقائق سے دور ایک الگ دنیا میں رہتے رہے۔
پڑھے لکھے مسلمانوں اور مسلم نوجوانوں کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا، ایک نئی بحث شروع کرنی ہوگی اور نئی سوچ کے ساتھ ایک نیا مسلم معاشرہ تشکیل دینا ہوگا۔ انہیں سمجھنا ہو گا کہ جذبات کی لہر میں بہہ جانے کے بجائے ان کے جواز اور انہیں قائل کرنے کے اور کیا طریقے ہیں؟
مسلمانوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ان کا مستقبل سیکولر معاشرے میں بہتر ہے اور ہوگا۔ اس لیے اسے اپنی قیادت کو سیکولر سیاسی فریم ورک کے اندر ہی دیکھنا ہوگا۔ اور ہمیں مذہبی مسائل کے بجائے اپنے معاشی مسائل اور سماجی اصلاحات پر پوری توجہ دینی ہوگی۔
(بشکریہ: ستیہ ہندی ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )