نئی دہلی آر کے بیورو
دھرم پریورتن کرانے کے الزام میں گرفتار عمر گوتم کی بیٹی نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے دل کے زخموں کو کریدتے ہوۓ کہا کہ ہماری فیملی ٹوٹ کر بکھر گئ ہے۔ ہم تنہا ہیں سب نے ساتھ چھوڑدیا،اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں ،زندگی کا زیادہ تر حصہ وکیلوں کے پیچھے دوڑنے میں گزرتا ہے ،کوئ تنظیم نہیں بولتی ہمارے حق میں سب نے ہونٹ سی لیے ہیں
ایک نیوز پورٹل سے گفتگو کرتے ہوۓ عمر گوتم کی بیٹی نے کہا کہ کیس میں کوئ پیش رفت نہیں ہوئ،کوئ امید افزا بات نہیں ہوتئ ۔انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ پاپا سے ملنے جاتے رہتے ہیں ،ان کی صحت خراب ہورہی ہے اور مایو سی بڑھتی جارہی ہے ،میری ممی ٹوٹتی جارہی ہیں بھائ کی غیر قانونی گرفتاری نے ان کو اور مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے،پاپا اور بھائ وہ بے گناہ ہیں اور یہ ثابت کرنا ہمارا ہدف ہے
ان پر عائد الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیبریکیٹڈ ہیں پاپا تبدیلی مذہب کرنے والوں کی قانونی مدد کرتے تھے ،کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا نہ ترغیب دی اور نہ ہی کسی پر دباؤ ڈالا ۔دوسرے ان کا آفس دہلی میں ہے اور مقدمہ لکھنؤ میں رجسٹرڈ ہوا دفتر2010میں قایم کیا تھا
ان کی بیٹی نے ایک سوال پر کہا کہ ابھی تک کوئ ایسی بات سامنے نہیں آئ کہ پاپا کو ٹارچر کیا گیا یا ان پر کوئ زیادتی ہوئ ہو مگر جیل تو جیل ہے بس ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوں اور باعزت بری ہوکر سماج کے سامنے آییں،مین اسٹریم میڈیا کے رویے پر جواب دیتے ہوۓ بیٹی نے کہا کہ اس نے ہماری فیملی کی امیج تباہ کردی ،زندگی بھر کی ساکھ کو ختم کردیا .وہ جج بن گیا فیصلے صادر کرتا رہا غیرملکی فنڈنگ کا الزام ہو یا دھرم پریورتن کرانے کا کسی کا کوئ ثبوت نہیں۔جو لیبل پیشانی پر لگادیا ہے باعزت بری ہونے کے بعد بھی اس کا دھلنا مشکل ہے ۔امید کی کرن یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا وہ سامنے آۓ اور پاپا کے حق میں گواہی دی شاید مقدمہ پر اس کا اثر پڑے
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد پر چار جگہوں گجرات،فتح پور،دہلی اور لکھنؤ میں مقدمات ہیں اند ازہ لگاییں کہ کیا حالت ہوتی ہوگی گزشتہ دنوں گجرات لے جایا گیا تھا ان دنوں لکھنؤ جیل میں ہیں ۔کیا لوگ ساتھ دے رہے ہیں بیٹی نے کہا کہ نہیں ددھیال ہو یا ننہال کوئ نہیں ہے ہمارا۔ ہم اکیلے ہیں میں اور میری ممی بھائ کا سہارا تھا،اس کو بھی لے گیے میری اور ممی کی صحت خراب ہورہی ہے ،میری میرے بھائ کی جاب،فیوچر،کریر،عزت سب ختم سالگتاہے ہمارے سپورٹ میں کوئ نہیں ہے تنظیمیں بھی خاموش ،گھر کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گیے ہیں ،سب کی نگاہوں میں سوال ہے۔ مقدمہ اپنی جگہ رکا ہے ۔رتی بھر پیش رفت نہیں ہوئ خواہ کوئ کچھ کہہ رہا ہو مگر حقیقت یہی ہے ۔
کیا ہے کسی کے پاس اس بیٹی کے سوالوں کا جواب؟