ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے سماج کا ایک اہم ترین ادارہ ہمارے قیدخانے ہیں، ایک اچھے سماج کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ وہاں انسانی و سماجی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے، ہر فرد کے انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کے اصول وضوابط نیز حدود متعین ہوتے ہیں، اگر کوئی ان حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے تو سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پورا سماج ان خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائے، اگر کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے تو مظلوم کو انصاف ملے اور ظالم کو اس کی سزا ملے، سزا سے زیادہ اہمیت سدھار اور اصلاح کی ہوتی ہے تاکہ سماج پرامن رہے، انصاف کے قیام کے انہیں چند مقاصد کے ساتھ قیدخانوں یا جیلوں کا وجود عمل میں آتا ہے اور پھر یہ قید خانے ہمارے سماج کا ایک اہم ترین جز بن جاتے ہیں۔
قید خانوں میں ایک قیدی دو صورتوں میں ہوتا ہے، پہلی صورت کہ کسی بھی فرد کے اوپر الزام لگا ہے، الزام کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کی موجودگی کو یقینی بنائے رکھنا اشد ضروری ہو تاکہ وہ انصاف کے عمل کا حصہ بنا رہے، وہ قانون کی گرفت سے بھاگ نا سکے مزید یہ کہ جرم کی تفتیش کے دوران کسی بھی طرح سے تفتیش میں نظرانداز نہ ہوسکے، نہ تو ثبوت اور ناہی شواہد کے ساتھ چھیڑچھاڑ یا اثرانداز ہونےکے امکانات رہیں۔ دوسری شکل ہوتی ہے جرم ثابت ہوگیا ہو اور سزا کے طور پر کوئی متعینہ مدت قید کے طور پر عدالت نے طے کردی ہو۔ بہرحال دونوں ہی صورتوں میں قید و بند کے پیچھے بنیادی مقصد ایک پرامن سماج کا دوبارہ حصہ بنانے کے لئے ایک اصلاحی کوشش ہو تاکہ وہ شخص دوبارہ سماج میں جب واپس آئے تو سماج کے اقدار کا پورا پورا پاس و لحاظ رکھے، نیز سماج کے دیگر افراد کے لئے بھی ایک نصیحت آموز سبق ہو کہ اگر اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا تو ان کا انجام بھی یہی ہوگا۔
ہمارے ملک کی جیلوں کی موجودہ صورت حال اس کے بنیادی نظریہ فکر کے بالکل برخلاف واقع ہوا ہے، ہماری جیلوں کے باہر جلے حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ “نفرت جرم سے کرو، مجرم سے نہیں۔” تاہم جیل کے اندر کی صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے، جیل میں قید ہونے کے بعد بھی ایک ملزم یا مجرم دستور ہند کے بنیادی شہری حقوق سے دست بردار نہیں ہوجاتا ہے، سپریم کورٹ نے “سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ” اور “مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا” کے فیصلوں میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ “جیل میں جانے کے بعد کوئی بھی شخص محض زندہ لاش نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ایک انسان ہوتا ہے اور انسانی عزت و احترام کے ساتھ آخری سانس تک زندہ رہنا ہر قیدی کا بھی دستوری حق ہے جس حق کو ہمارے دستور کا آرٹیکل 21 حق برائے زندگی یقینی بناتا ہے، کسی بھی طرح کا غیر اخلاقی یا غیرانسانی سلوک غیردستوری اور غیرقانونی شمار کیا جائے گا۔”
آج ہمارے ملک کی جیلوں کی صورت حال تشویشناک ہیں، گزشتہ سال جنوری 2020 میں وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں پریزن اسٹیٹسٹک انڈیا (پی ایس آئی) کی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق ہمارے ملک کی جیلوں میں2018 کے دوران کل 1845 قیدیوں کی دوران حراست موت ہوئی تھی، یہ اعداد و شمار گزشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ تھے، یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ اس وقت تک ہمارے ملک میں کرونا مہاماری نے دستک نہیں دی تھی، اب جب کہ کرونا کی دوسری لہر نے ہمارے ملک کو پوری طرح سے متاثر کردیا ہے جس کا اثر ہمارے ملک کی جیلوں کے اندر بھی پوری طرح پہنچ چکا ہے، قیدیوں کے ساتھ ساتھ جیل کا اسٹاف بھی کرونا کا شکار ہورہا ہے، کرونا سے جیلوں میں بند قیدی بآسانی شکار ہورہے ہیں، لیکن حکومت و عدلیہ کی ابھی تک کوئی اطمینان بخش کوشش نظر نہیں آرہی ہے جس سے یہ محسوس ہوکہ جیلوں میں بند لاکھوں قیدیوں کی زندگی کو لے کر حکومتیں کوئی سنجیدہ پیش رفت کررہی ہیں۔
اگر عالمی اور ہندوستان کی جیلوں میں بند قیدیوں کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2020 تک پوری دنیا کی جیلوں میں بند قیدیوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا جب کہ ہمارے ملک کی جیلوں میں 71 فیصد اضافہ ہوا، وہیں خواتین قیدیوں میں 111.7 فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ عالمی اعداد و شمار سے بہت زیادہ تھا۔ آج ہمارے ملک کے قیدخانوں میں قیدیوں کی تعداد تقریبا چار لاکھ سے زائد ہے جن میں تقریبا 70 فیصد زیر سماعت قیدی ہیں جن کے مقدمات کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور عدالتوں نے ان کو مجرم قرار نہیں دیا ہے تاہم الزام ہونے کی بنیاد پر وہ جیلوں میں بند ہیں، زیرسماعت قیدیوں کی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران 25.4 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ دستور و کرمنل قوانین کی روشنی میں الزام ثابت ہونے تک کسی بھی ملزم کو بے گناہ تسلیم کیا جائے گا اور اس بے گناہ ملزم کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔” لیکن افسوس عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مقدمات کی سنوائی اتنی طویل مدتی واقع ہوتی ہیں کہ پروسیجر بذات خود سخت ترین سزا بن کر رہ گیا ہے۔ مقدمات کی سنوائی اور فیصلے میں تاخیر کے اعداد و شمار چونکانے والے ہیں، 2020 کے دوران تین سال سے زائد عرصے کے زیرسماعت قیدیوں کی اعدادوشمار میں 140 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے جب کہ ایک سال سے کم میں مقدمات کی سماعت کے اعداد و شمار میں 7.54 فیصد کی کمی آئی ہے، یعنی مقدمات کی سماعت میں عدالتوں نے مزید تساہلی و سستی برتنی شروع کردی ہے جب کہ پولیس نے گرفتاری کی رفتار تیز کردی ہے۔
نتائج ہمارے سامنے ہیں، یہ اعداد و شمار کرونا مہاماری کے بعد کیا ہونگے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، گزشتہ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع نہیں ہوسکی ہیں اور نا ہی مستقبل قریب میں امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی تعداد وہاں کی صورت حال کو مزید تشویشناک بناچکی ہیں، حقوق انسانی کے تحفظ کے امکانات پوری طرح ختم ہوچکے ہیں، کوششیں ناممکن ہیں، اقوام متحدہ نے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک و برتاو کو لے کر اصول بنائے تھے جن کو دنیا “نیلسن منڈیلا رولس 2015” کے نام سے جانتی ہے، ان اصولوں کے مطابق حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیل کی زندگی اور جیل سے باہر کی زندگی کے درمیان کے فرق کو کم سے کم تر بنائیں، یعنی ایک قیدی کی زندگی بھی معیاری طور پر ایک آزاد شخص کے معیار زندگی جیسی ہو جہاں نا تو زندگی کو خطرات لاحق ہوں اور نا ہی ایسے حالات جہاں انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گزارنا محال ہوجائے۔
دستور نے ہمارے ملک کے شہریوں کے حقوق محفوظ کرنے کی غرض سے ان تمام ہی بنیادی حقوق کو تحریری شکل میں پیش کردیا جو کہ ایک جمہوری ملک میں شہریوں کو ضروری محسوس ہوسکتے تھے، ان دستوری حقوق کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں نے مزید تقویت بخشنے کی غرض سے اپنے مقدمات میں مزید مفصل انداز میں واضح بھی کردیا، حالیہ کرونا مہاماری کے دوران الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ “زندہ رہنے کا حق دستوری ہے، کرونا مہاماری زندگی کو لاحق حقیقی خطرہ ہے، اس خطرے سے بچنے کے لئے پیشگی ضمانت دیتے ہوئے کرونا کو بنیاد بنائی” لیکن افسوس ہمارا سماج خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، اس سماج کو یہ فکر نہیں کہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے قیدی اور ان کے اہل خانہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور سماج کی اگر اتنی بڑی تعداد اس مہاماری میں ہمارے سست و ناکام سسٹم کی وجہ سے پریشان ہیں تو ہم خاموش تماش بین کیسے ہو سکتے ہیں اگر ہماری سانسیں ابھی تک چل رہی ہیں اور ہم ایک مثالی پرامن سماج کا خواب دیکھتے ہیں، یقینا ان قیدیوں میں بہت سے بے گناہ قیدی بھی ہونگے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جیلوں کی خستہ حالی اور عدلیہ کی سست روی کے سماجی مہم شروع کریں، خود بھی بیدار ہوں اور سماج کو بھی بیدار کریں، ہمارا قانون کہتا ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا ناہوچاہے سو گناہ گار چھوٹ جائیں۔