جیریمی بووئن
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تازہ لڑائی کی وجہ یہ ہے کہ فریقین کے مابین یہ دیرینہ اور غیر حل شدہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر ناسور بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہ مشرقِ وسطی کے دل میں ایک کھلا ہوا زخم ہے اور اسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ آمنے سامنے ہونے والی جھڑپیں اور ہاتھا پائی بڑھ کر راکٹوں، فضائی حملوں اور ہلاکتوں تک پہنچ گئی ہے۔
صرف اس لیے کہ حالیہ برسوں میں یہ تنازع بین الاقوامی سطح پر شہہ سرخیوں کی زینت نہیں بن رہا تھا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ختم ہو چکا ہے۔
ایسے تنازعے جنھیں چند برسوں نے نہیں بلکہ نسلوں کے درمیان لڑائی اور ہلاکتوں نے سینچا ہو وہ خودبخود ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے پیدا ہونے والی نفرتیں اور تلخیاں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دریائے اردن اور بحیرہِ روم کے درمیان علاقے کا مالک بننے کے لیے یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اسرائیل نے سنہ 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کو کئی مرتبہ کچلنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی وہ ابھی تک جیت نہیں سکا ہے۔
جب تک یہ تنازع جاری ہے دونوں میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال میں کم از کم ایک بات یقینی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ہر کچھ سال کے بعد ایک سنگین اور پرتشدد بحران پیدا ہو گا۔ گزشتہ تقریباً 15 برس سے اکثر یہ کشیدگی غزہ کو اسرائیل سے تقسیم کرنے والی خاردار تاروں کو پار کر کے غزہ پہنچ جاتی ہے۔
اس مرتبہ بھی یہ ایک یاد دہانی ہے کہ یروشلم اور اس کے مقدس مقامات میں ہونے والے واقعات میں تشدد کو بھڑکا دینے کی بے مثال قوت موجود ہے۔
مسیحیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے اس شہر کا تقدس صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات قومی علامات بھی ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک دوسرے سے بس اتنے ہی دور ہیں کہ وہاں تک ایک پتھر بھی پھینکا جا سکتا ہے۔
ایک اسرائیلی چیک پوسٹ کی دوسری جانب ہولی سیپلکر چرچ بالکل قریب ہی واقع ہے جو فلسطینی مسیحیوں کے لیے انتہائی قابلِ احترام ہے۔
شیخ جرح کے علاقے میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں اور خدشات حالیہ کشیدگی کی ایک وجہ یہ ہیں۔ یہ قدیم شہر کی دیواروں سے باہر ایک فلسطینی محلہ ہے جس کی زمین اور گھروں کے ملکیت پر یہودی آبادکاروں نے عدالتوں میں مقدمات کیے ہوئے ہیں۔
لیکن یہ صرف چند گھروں کی ملکیت کا تنازع نہیں ہے۔ یہ برسوں سے اسرائیلی حکومتوں کی ان باقاعدہ کوششوں کے نتیجے میں پنپنے والا تنازع ہے کہ یروشلم کو زیادہ سے زیادہ یہودی بنایا جائے۔
بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے شہر کے چاروں جانب بڑی بڑی یہودی بستیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور آبادکاری کے گروپوں نے مل کر قدیم شہر کی دیواروں کے پاس فلسطینی علاقوں میں ایک ایک کر کے گھروں میں یہودی اسرائیلیوں کو بسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
حالیہ کشیدگی میں مزید اضافہ رمضان کے مہینے میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس کے سخت رویے کی وجہ سے بھی ہوا۔ اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصیٰ کے اندر آنسو گیس اور سٹن گرینیڈز کا بھی استعمال کیا۔
حماس نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو اپنے سکیورٹی دستوں کو مسجد الاقصیٰ اور شیخ جرح سے فوری طور پر ہٹانے کا الٹی میٹم دیا اور اس کے بعد یروشلم کی جانب راکٹ داغ دیے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ٹویٹ کیا کہ ‘غزہ میں دہشت گرد تنظیموں نے اپنی حدیں پار کی ہیں۔ اسرائیل پوری قوت سے جواب دے گا۔
حالیہ واقعات کی طرح کے دوسرے واقعات کا بھی یہی نتیجہ نکلتا۔ تشدد کے واقعات ہوتے رہیں گے لیکن اصل تنازع بغیر کسی حل کے چھوڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ پیر کو، جب حالیہ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا، بی بی سی کے ایک میزبان نے مجھ سے پوچھا کہ آخری مرتبہ مجھے کب یہ امید نظر آئی تھی کہ دونوں فریق پر امن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا کوئی حل ڈھونڈ لیں گے۔ میں سنہ 1995 سے 2000 تک یروشلم میں رہ چکا ہوں اور اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ وہاں جا چکا ہوں۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران ایک مختصر عرصے کے لیے امید پیدا ہوئی تھی۔ لیکن یروشلم کے کچھ لوگوں کو ہی یہ یاد ہو گا اس امید کا احساس کیسا تھا۔
دونوں طرف کے رہنما اپنی مقامی سیاسی لڑائیوں میں بھی مصروف رہے ہیں، ان کی توجہ سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کرنے پر بھی رہی ہے، جبکہ کسی بھی اسرائیلی اور فلسطینی سیاستدان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ امن کا قیام ہونا چاہیئے۔ اس چیلینج کو کئی برس سے سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا ہے۔
کچھ نئی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ کارنیگی انڈاؤمنٹ فار پیس اور یو ایس مڈل ایسٹ پروجیکٹ جیسے نامور تھنک ٹینکس کا استدلال ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے برابر کے حقوق اور سکیورٹی پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔
ان تھنک ٹینکس کے مطابق ’اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کو مکمل برابری اور حقِ رائے دہی‘ کی امریکہ کو حمایت کرنی چاہیے اور وہ ’دو علیحدہ اور غیر مساوی نظاموں کی توثیق نہیں کریں گے۔‘
یہ نئی سوچ اچھی ہے۔ تاہم اس ہفتے وہی پرانی حقیقتیں، وہی جانی پہچانی لفاظی اور پرتشدد واقعات، ہر نئی اور تازہ سوچ کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی ارود)