محمد خالد شمس
اردو ادب کے مختلف صنف میں دوہی صنف ایسا ہے جو ریختہ کی دنیا میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ شعری صنف میں غزل اور نثری صنف میں افسانہ، افسانہ وہ صنف ہے جِسے سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا گیا۔ اردو افسانے کی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن مختصر سے عرصے میں جو شہرت اِس نے پائی وہ اپنے میں ایک مثال ہے۔
افسانہ دراصل ناول قصّہ کہانی کا ایک چھوٹا شکل ہے یایوں کہیں کہ افسانہ ناول کا ایک جُز ہے۔ جہاں تک اِس کے اِرتقا کا سوال ہے کچھ لوگ منشی پریم چند کو اِس کا موجد مانتے ہیں تو کچھ لوگ اِس سے ہٹ کر رائے رکھتے ہیں۔
اردوافسانہ نگاروںکی اگر فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں کی تعداد میں ہمارے ہندوستان میں ملیں گے۔ جن میں مشہور ومعروف منشی پریم چند ر،کرشن چندر ،سہیل عظیم آبادی ، حسین الحق ، شفق سہسرامی ، عین تابش ، شاہد جمیل،ارمغان شاہی ،مرتضیٰ ساحل تسلیمی ، قرۃ العین حیدر، محمد طارق ،راجندر سنگھ بیدی ،خواجہ احمد عباس ،رضیہ بٹ،بشیر مالیر کوٹلوی ،اسلم جمشید پوری ،عتیق جیلانی سالک رامپوری ،شوکت تھانوی، عصمت چغتائی، وغیرہ وغیرہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اردو افسانہ نگاروں نے افسانے کوبلندیوں تک پہونچایا۔
افسانہ نگاری کے اوائل دور میں اس کے جُزعشق محبت پر مبنی ہواکرتے تھے یا پھرما فوق الفطرت کردار کو لے کر افسانے لکھا کرتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے اوائل سے اِس میں فرق دیکھنے کو ملنے لگتا ہے۔ جب پورے ملک میں
زمیندارانہ نظام قائم تھا جس کے ظلم اور بربریت سے لوگ پریشان تھے تو منشی پریم چند نے اس زمیندارانہ نظام سے پیسنے والے پریشانیوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تک جو اردوافسانے چندلوگوں کے قلم کی زینت تھے دوسروں تک پہونچنے لگی جس کے سبب دوسرے قلم کاروں نے بھی اپنے افسانے کا موضوع آس پاس ہونے والے واقعات کو بنایا جس میں پیش پیش خواجہ احمد عباس ،سہیل عظیم آبادی، اختر اور نیوی نے، اپنے قلم کا جادوبکھیرا۔ جس زمانے میں اردو افسانہ فروغ پارہا تھا اُس وقت سماج میں عورتوں کو لے کر بھی ایک الگ خیال تھا عورتوں پر ہونے والے ظلم وجبروغیرہ نے اِس کے خلاف احتجاج بلند کیا۔ جب زمیندارانہ دور آیا۔ تو لوگوں کے مسائل بولے اب عوام کے سامنے ہے روزگاری ،بھوک مری سماج میں بڑھتی برائی ظلم وتشدد درپیش تھا تو افسانہ نگاروں نے اپنا موضوع اُسے بنایااور معاشرے کے سامنے اِس کے دور رس نتائج کو پیش کیا۔
اکیسویں صدی پوری طرح سے جدید ترقی پیشہ کا دور ہے اِس لئے اِس دور میں بھی بہت سے ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے قلم کا جادو بکھیرا ہے، جس میں شاہد جمیل،حسین الحق، مشفق سہسرامی، بدر وفا شیدانی ، خلیق النساء، مُرتضیٰ ساحل،تسلیمی ،عین تابش وغیرہ ایسے نام ہیں لیکن ان سبھی نامو ں کے علاوہ ایک اور نام ہے جو افسانوی دنیا میں اپنا نام روشن کررہا ہے وہ ہے پرویز اشرفی۔ پرویز اشرفی ایک ایسے افسانہ نگارہے جن کی تلخ وشیریں حقائق اور سچی تصویر نظرآتی ہے۔ ان کے افسانے میں قاری کو اپنی زندگی کا عکس نظرآتادکھائی دیتاہے۔ ان کے افسانے کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جس بات کو افسانہ نگار کہہ رہا ہے وہ اُس کے زندگی میں گزری ہے یا گزر چکی ہے۔ ان کے افسانے کاجتنا بھی موضوع ہے سب کے سب سماج کے متوسط طبقے کی نمائندگی کرتانظرآتاہے۔ ان کے افسانے میں زندگی کے اصولوں میں گراوٹ، رشتوں میں کڑواہٹ ، ازدواجی زندگی کی خلش ہے مروت سماج گرتے اخلاقی طور وغیرہ کو نہایت ہی سلیقے اور نفسیاتی ڈھنگ سے اپنے افسانے میں ڈھالتے ہیں۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ آخری پڑاو کا کرب، وہ بڑا آسمان ، ماں کے آنکھوں سے ٹپکتا خون یہ تینوںمجموعے اپنے آپ میں بے مثال ہے ۔ مجھے ان کی کتاب روپڑاآسمان پڑھا جس میں کل34افسانے ہیں جو سبھی اپنے آپ میں بے مثال ہے ۔ اِس افسانوی مجموعہ میں جس افسانے نے مجھے زیادہ متاثر کیاہے وہ ہے ’’جھوٹا سچ‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کی گرتی ہوئی اخلاقی قدر کو جس خوبی سے پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور اگر موجودہ وقت میں ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کا احتساب کریں تو پورے ملک کے کچھ رہنماؤں کو چھوڑ کر قریب قریب سبھوں کا یہی حال ہے ایوان میں مارپیٹ گالی گلوج توڑپھوڑ چھینٹا کشی کرنا عام بات ہوکر رہے گیاہے ہریاسیاست داں اپنے مفاد کے لئے ہر وہ کام کرگزرنے پر آمادہے جو اخلاقی طور پر ناگزیر ہے۔
پرویزاشری چونکہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اِس کے علاوہ بھی دوسری سمت میں بھی اچھاکام کیاہے انہیں تاریخ سے شغف رہاہے جس سلسلے میں انہوں نے ’’ذرایاد کروقربانی کتاب لکھی‘‘ان کی لکھی ہوئی ایک کتاب ’’عہدوسطیٰ میں ہندوستان کے مسلم حکمراں‘‘ کے نام سے منظرِعام پر آچکی ہے جس میں انہوں نے محمد بن قاسم سے لے کر بہادرشاہ ظفردوئم تک کے مسلم حکمرانوں کے ذریعہ ملک میں کئے گئے سیاسی معاشی اقتصادی اور فلاحی کاموں کا ذکر کیاگیاہے یہ کتاب پوری طرح سے تحقیق پر مبنی ہے جس میں کافی وقت اور محنت لگا ہوگا جس کی زبان بالکل سادہ اور آسان ہے۔ اِس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے ایک تاریخی سریز لکھی جس میں اورنگ زیب 2010 علاء الدین خلجی 2010شیر شاہ سوری اور بہادر شاہ ظفر2012 کے مختلف اخباروں میں شائع ہوچکا ہے ۔ اِسی طرح بچوں کے لئے کہانی کے مجموعے بھی لکھے جس میں اقصی کے دادوں کی کہانی ، سب سے بڑا کون، گل مُہر کا درخت قابل ذکر ہے۔
پرویزاشرفی کے لکھنے کا طریقہ بالکل سادہ ہے کسی بات کو صاف صاف آسان لفظوں میں بیان کرتے ہیں ۔ تسلسل بیانی کافی اچھا ہے پڑھنے والا اُبتا نہیں ہے ۔ کوئی بھی افسانہ نہ کافی لمباہے اور نہ ہی چھوٹا۔ پورے افسانوی مجموعہ میں میانہ روی اختیار برقرار رکھتاہے۔
آخر میں بتاتا چلوں کہ پرویز اشرفی نے جتنے کم وقت میںشہرت پائی وہ ان کے لئے فخر کی بات ہے دراصل ان میں کتابیں پڑھنے کا شوق ان کے بڑے ماموں مرحوم شمس الحسن آرومی سے ملی جو کہ پیشہ سے ایک استاذ تھے لیکن انہیں کتابیں خاص کر ناول افسانہ کہانیاں پڑھنے کا کافی شوق تھا۔ جناب پرویز اشرفی صاحب کو بھی انہیں کے صحبت کا اثر ہوا۔جناب پرویزاشرفی کی پیدائش 10ستمبر1955کو مونگیرمیں اپنے نانیہال میں ہوا۔
ابتدائی تعلیم سہسرام میں ہوئی پھر کچھ عرصے کے لئے مونگیر میں ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی غالباً اس وقت ہی انہیں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق جگا ہوگا۔ اِس کے بعد دوبارہ سہسرام گئے چونکہ ان کے والد سہسرام کورٹ میں پیشکار تھے انہوں نے وہیں سے BSCکی ڈگری حاصل کی۔ کچھ دنوں کے لئے آل انڈیا ریڈیو سہسرام میں اناؤنسر کا کام کیا ساتھ ساتھ وہیں بال وکاس اسکول میں تدریسی کام بھی انجام دیتے رہے۔ لیکن روزی روٹی نے ا نہیں ملک کے معروف ادارہ شعبہ دارالحسنات رام پور سے جوڑدیا۔ قریب دس سال تک استاذ کے کام انجام دیئے۔ یہاں سے ان کا ٹرانسفر جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر دلی ہوا جہاں انہوں نے شعبہ تعلیمات میں اپنا کام انجام دیا ۔
اتنی چھوٹی سے ادبی سفر میں جناب پرویز اشرفی کافی عزت اور شہرت ساتھ ساتھ کئی انعامات سے بھی نوازے گئے جس میں دلی اردواکاڈمی، یوپی اردو اکاڈمی غالب اردواکاڈمی دلّی قابل ذکر ہے۔ فی الحال جناب پرویز اشرفی دلی میں قیام پذیر ہیں اور وہیں سے اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بیلن بازار مونگیر بہار
9905969340
٭٭٭