تحریر:زینت اختر ( نئی دہلی)
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پرددیش میں اس وقت صوبائی انتخابات کا موسم ہے۔ میں نے ٹرین پر ایک سفر کے دوران چند مسافروں کی سیاسی گفتگو سنی تو ششدر رہ گئی۔ ان کی تان اس نکتے پر ٹوٹ رہی تھی کہ ملک میں مسلمانوں کا ‘خوب تشٹی کرن‘ (ناز برداری) ہو رہی تھی، جسے یوگی جی (یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ) نے ختم کر دیا۔
ان کے نزدیک یہ یوگی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، بھلے ہی کورونا وائرس کی وبا اور اس سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے ریاست میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئی ہوں، یہ ان کا موضوع ہرگز نہیں۔
میں نے ہمت کرکے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو مسلمان اس وقت یو پی اور پورے ملک میں دیگر طبقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ کیوں نہیں ہیں؟
اس ریاست میں آزادی سے پہلے مسلمان جو ہر اعتبار سے بہتر حالت میں تھے، آج وہ سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی غرضیکہ ہر میدان میں اپنے ہم وطنوں سے کیوں بہت پیچھے رہ گئے ہیں؟ اس سوال پر ان پر سکتہ چھا گیا۔
میرے سامنے یو پی میں مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی و سماجی حالت کے بارے میں 76 صفحات پر پھیلی ایک رپورٹ ہے، جس کا عنوان ہے ‘اتر پردیش میں مسلمانوں کا ترقیاتی دوڑ میں مقام اور پالیسی مضمرات‘
7 جنوری کو ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں اس رپورٹ کو کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے جاری کیا، جو یہاں اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے بارے میں تحقیقی نوعیت کی ایسی پہلی رپورٹ ہے، جو فرقہ پرست عناصر کے’’تشٹی کرن‘‘ پروپیگنڈا کی بھی قلعی کھولتی ہے۔
جیسا کہ اس سے قبل مشہور سچر کمیٹی رپورٹ (2006) نے پورے ملک کے مسلمانوں کی تصویر پیش کرکے حکمرانوں اور عوام دونوں کو آئینہ دکھایا تھا۔ چونکہ یہ رپورٹ سرکاری اعداد وشمار اور دستاویزات سے لیس ہے اور اسے نامور ماہرین جیسے پروفیسر امیر اللہ خان، پروفیسر پی سی موہن اور پروفیسر امیتابھ کنڈو نے مرتب کیا ہے جبکہ سینٹر فار ڈویلپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹیس نے شائع کیا ہے، اس لیے اس میں پیش کردہ حقائق کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ہے۔ اس کی مستند حیثیت مسلم ہے۔
تعلیم کو ترقی کی کنجی کہا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے سب سے پہلے میں یو پی کے مسلمانوں کی تصویر پیش کروں گی، جو نہ صرف اس ریاست میں 20 فیصد سے زیادہ بلکہ بھارت کی منجملہ مسلم آبادی میں تناسب سے اعتبار سے سب سے زیادہ یعنی 23 فیصد ہیں۔
اس ریاست میں شہرہ آفاق تعلیمی ادارے جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند (جسے مصر کے جامعہ الازہر سے تشبیہ دی جاتی ہے)، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعتہ الفلاح، علامہ شبلی کا دارالمصنّفین اور شبلی کالج وغیرہ جیسے اہم تعلیمی و علمی ادارے واقع ہیں، وہاں تعلیم میں مسلمان پیچھے رہ جائیں یہ کیسے ممکن ہوا؟
یو پی میں 40.83 فیصد مسلمان ناخواندہ ہیں جبکہ مجموعی ناخواندگی کی اوسط شرح 34.01 فیصد ہے۔ وسطانوی سطح کی تعلیم میں مسلمانوں کی شرح16.8 فیصد ہے جبکہ پوری ریاست میں یہ کی شرح 25.5 فی صد ہے۔
صرف 4.4 فی صد مسلمان ہی یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی 15 سال عمر سے اوپر کی آبادی میں 71.2 فیصد افراد ناخواندہ یا پرائمری سطح سے نیچے کی تعلیم حاصل کیے ہوئے جبکہ قومی شرح اوسط 58.3 فیصد ہے۔
باقاعدہ یا منظم روزگار میں مسلمانوں کا تناسب 25.6 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 31.6 فیصد ہے۔ یعنی مسلمانوں کی بڑی اکثریت چھوٹے موٹے کاموں اور غیر منظم پیشوں میں کام کر رہی ہے۔
آزادی سے قبل مسلمان بڑے پیمانے پر جائیداد کے مالک تھے۔ اب46.41 فیصد مسلم خاندانوں کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں ہے جبکہ ایسے ہندو خاندانوں کی تعداد 29.38 فی صد ہے۔ محض 1.70 فیصد مسلم خاندانوں کے پاس 5 ایکڑ رقبہ کی زرعی اراضی ہے۔ یہ تناسب ہندو خاندانوں میں چار فی صد ہے۔
غربت کا یہ عالم ہے کہ مسلم خاندان میں فی کس ماہانہ خرچ 752 روپے ہے جبکہ قومی اوسط پورے ملک میں فی کس 988 روپے ہے۔ دیگر تمام طبقات کے موزانہ میں مسلمانوں میں افلاس کی شرح بہت زیادہ ہے۔
بے روزگاری کی شرح کے لحاظ سے مسلمانوں میں 2018-2019 سے 9.95 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ مسلمان روایتی طورپر زراعت اور دستکاری کے پیشوں سے وابستہ رہے ہیں۔ مراد آباد کی پیتل سازی کی صنعت، علی گرھ کی تالا صنعت، سہارنپور کی عمارتی لکڑی کی صنعت، فیروزآباد کی چوڑی سازی کی صنعت، خورجہ کی چینی ظروف کی صنعت، رامپور کی چاقو سازی اور میرٹھ کی قینچی سازی کی صنعت اور بھدوئی و مرزا پور کی قالین بافی کی صنعت وغیرہ اب دم توڑ رہی ہیں۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ خام مال کمی، اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہ ہونے جیسے مسائل اس کا سبب ہیں۔
سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی کسی بھی طبقہ یا کموینٹی کی حیثیت کا پتہ دیتی ہے۔ آزادی سے پہلے مسلمان اچھی خاصی تعداد میں سرکاری ملازمتوں میں تھے۔ ریزرویشن کوٹہ کے اطلاق کے بعد مسلمانوں کے پسماندہ طبقات غیر مسلم پسماندہ طبقات کے موزانہ میں بہت پیچھے ہیں۔
یو پی پبلک سروس کمیشن نے 2015 میں 521 امیدواروں کا انتخاب کیا جن میں فقط 19 یعنی 3.65 فی صد مسلمان تھے۔ اسی طرح 2013 میں ذیلی ملازمتوں کے لیے منتخب 1545 امیدواروں میں صرف 31 مسلمان تھے۔
صوبہ کی یونیورسٹیوں میں 1834 اساتذہ کی بھرتی کی گئی ان میں صرف 57 مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ یو پی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 727 نئے اسسٹنٹ پروفیسروں کی بھرتی کی، ان میں 149 اسامیاں او بی سی یا پسماندہ طبقات کے لیے مختص تھیں جن میں صرف 4.69 فی صد پر مسلمان منتخب کیے گئے۔
دیہی علاقوں میں افرادی قوت میں مسلمان خاندان کا تناسب 29.4 فی صد جبکہ غیر مسلم خاندان کا 27.6 فی صد ہے۔ تشویش کی بات یہ کہ 5-14 سال کے عمر کے گروپ میں کمسن مزدوروں کی تعداد مسلمانوں میں سب سے زیادہ یعنی 6.10 فی صد ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ تناسب 4.20 فی صد ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ خاندان کی کفالت کے لیے مسلم بچوں کو تعلیم کے حصول کے بجائے کام کرنا پڑتا ہے۔
معاشی سرگرمیوں میں بینکوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ مسلم علاقوں میں بینکوں کی سہولیات بھی کم ہیں۔ اس کی واضح مثال سنبھل اور بلرامپور جیسے قصبے ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر یہاں سب سے کم تعداد میں بینک یعنی 160، اور 134 بالترتیب بینک شاخیں ہیں جبکہ ان دونوں قصبوں کی آبادی لاکھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں نے بعض مسلم علاقوں کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو آسانی سے قرض نہیں ملتے۔ مسلم بستیوں میں اے ٹی ایم کی مشینیں بھی بہت کم تعداد میں ہیں۔
مالی تفاوت بھی دونوں فرقوں میں بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں کا ہر پانچواں خاندان غریب ترین طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ دولت کی تقسیم کے لحاظ سے امیر ترین خاندانوں میں ہندوؤں کا تناسب 22.10 فیصد اور مسلمانوں کا 16.4 فی صد ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس تشویشناک صورت حال کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ یو پی سے مسلمان ریاستی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ایوانواں میں پہنچتے نہیں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ مسلم قیادت نے شاید ہی اس طرف توجہ دی یا وہ اپنی سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی مجبوری کے سبب زبان کھولی۔ یہ اس بات کی بھی عکاس ہے کہ اس ریاست میں جہاں آزادی سے قبل بڑے بڑے مسلم رہنما پیدا ہوئے لیکن وہ آج ویسی مضبوط مسلم قیادت والی ریاست میں شمار نہیں کی جا سکتی ہے۔
بد قسمتی سے بھارت میں جمہوریت کے معنی الیکشن او ری الیکشن کے بعد عوام کی ایک بڑی تعداد اسے بھول جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل دھرے دھرے رہ جاتے ہیں۔
(بشکریہ:ڈی ڈڈبلیو:یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)