گورکھپور :(ایجنسی)
گورکھ ناتھ مندر کے باہر پولیس اہلکاروں پر حملے کے بعد ملزم احمد مرتضیٰ عباسی نے دوران تفتیش کئی باتوں کا اعتراف کیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے دعوے کے مطابق اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ غلط ہو رہا ہے، سی اے اے-این آر سی بھی غلط ہے، بس اسی غصے میں اس نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔ مرتضیٰ سے لکھنؤ میں کئی ایجنسیاں پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔
ملزم مرتضیٰ عباسی نے تفتیش کے دوران کہا کہ ’ٹیمپو پر چڑھے، ہم نے کہا گورکھ ناتھ مندر پر ہی اتار دینا، پولیس ہےوہاں اسی پر ہم حملہ کردیں گے کچھ پھر چلے جائیں گے، کام تمام ہو جائے گا میرا۔‘ اس نے کہاکہ ’ ہم کئی زاویوں سے سوچ رہے تھے۔‘
سی اے اے-این آر سی کا ذکر کرتے ہوئے مرتضیٰ نے کہا، ’میرے ذہن میں یہی چل رہا تھا، کوئی بھی کام کرنے سے پہلے آدمی اس کے بارے میں سوچتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ غلط ہو رہاہے، تو ہم نے سوچا کہ اب کر ہی دو بھائی، نیپال میں بھی نہیں سو پائے تھے۔‘ کرناٹک میں بھی مسلمانوں کے ساتھ صحیح نہیں ہو رہا ہے۔
پہلے دن پوچھ گچھ میں کیا کہا تھا؟
اس سے پہلے بدھ کو مرتضیٰ سے لکھنؤ میں اے ٹی ایس نے پوچھ گچھ کی تھی۔ مرتضیٰ عباسی بدھ کو تقریباً 10:00 بجے اے ٹی ایس ہیڈکوارٹر پہنچا۔ اے ٹی ایس ہیڈکوارٹر پہنچ کر جب مرتضیٰ سے کھانے پینے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اے ٹی ایس کینٹین سے چائے اور دال اور چاول کا آرڈر دیا۔
تقریباً 2 گھنٹے بعد اے ٹی ایس کے 4 افسران کی ٹیم نے مرتضیٰ سے پوچھ تاچھ شروع کی۔ گورکھپور میں ابتدائی پوچھ گچھ اور لکھنؤ میں پوچھ گچھ کے دوران احمد مرتضی قدرے پریشان نظر آیا۔ گورکھپور میں پوچھ گچھ کے دوران مرتضیٰ خود کو ذہنی مریض بھی بتانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن لکھنؤ میں ہونے والی پوچھ گچھ کی ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی تھی، اس لیے اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ اس کی ہر بات اور ہر عمل اب قانونی شکل دیا جائے گا ۔
مرتضیٰ نے بتایا کہ 2 اپریل کو جب دو افراد اس کے بارے میں جانکاری لینے کے لئے چچا احمد عباسی کے نرسنگ ہوم پہنچے تھے ، تب وہ گھر پر ہی تھا لیکن جیسے ہی اسے جانکاری ملی کہ 2 لوگ اس کے بارے میں جانکاری لے رہے ہیں ،36 لاکھ کے لون کی بات کررہے ہیں تو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کون سے لون پر کورٹ کا سمن لے کر آئے ہیں ؟
مرتضیٰ نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا تھا ’’جب وہ دونوں لوگ واپس چلے گئے تو عباسی نرسنگ ہوم کے سی سی ٹی وی میں ان کی تصویریں نظر آئیں، ان کا قد دیکھا گیا، خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ یہ دیسی پولیس بینک کے لوگ ہو سکتے ہیں۔‘ یہ خدشہ ہوتے ہی عباسی گھبرا گیا۔
جلدی میں اس نے اپنے والد کا بیگ اٹھایا، اس میں اپنا لیپ ٹاپ رکھا اور ماں سے کہا کہ مجھے نہیں معلوم پولیس مجھے کیوں ڈھونڈ رہی ہے، میں جا رہا ہوں۔ بیٹے نے بھی کی گھبراہٹ دیکھ کریہ نہیں پوچھا کہ وہ پولیس سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے اور اس نے کچھ روپےبھی عباسی کو دئے تھے۔ احمد مرتضیٰ عباسی دیر رات سدھارتھ نگر کے نوگڑھ پہنچا۔
اس نے رات نوگڑھ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک مسجد میں گزاری۔ صبح اسی مسجد میں نماز پڑھی اور پھر وہاں سے نیپال چلا گیا۔ انڈو نیپال بارڈر پر اس نے مقامی دکان سے 2 بانکے اور چاقو خریدے تھے۔ اتوار کا پورا دن سدھارتھ نگر میں گزارنے کے بعد وہ دوپہر کو بس سے واپس گورکھپور پہنچا۔ یہاں سے وہ سیدھے گورکھ ناتھ مندر پہنچا اور مندر کے گیٹ پر ہی پی اے سی جوانوں انل پاسوان اور گووند گوڑ پر حملہ کردیا۔