بھوپال :(ایجنسی)
مدھیہ پردیش میں پیش آنے والے ایک حیران کن واقعے میں ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل نے مبینہ طور پر ایک چھ سالہ لڑکے کا گلا دبا کر اس وقت جان لے لی، جب بچے نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پولیس سے بار بار پیسوں کے لیے اصرار کیا۔
یہ واقعہ گزشتہ ہفتے ریاست کے داتیا میں پیش آیا تھا، تاہم ملزم پولیس کانسٹیبل روی شرما کی گرفتاری گزشتہ روز ہوئی۔ مقامی پولیس افسر امن سنگھ راٹھور کا کہنا ہے کہ ملزم روی شرما گوالیار میں تعینات تھے اور محکمہ پولیس کو انہیں برخاست کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے۔
ایس پی امن سنگھ راٹھور کا کہنا تھا کہ چھ سالہ بچے، ’روی شرما سے کھانا خریدنے کے لیے کچھ پیسے مانگے، تاہم پولیس والے نے پیسے دینے سے انکار کرنے کے ساتھ ہی لڑکے کو وہاں سے بھگا دیا، لیکن وہ بچہ پھر دوبارہ آیا اور پیسے مانگنے لگا، اس پر پولیس والے نے غصے میں آ کر نابالغ بچے کا گلا دبا کر اسے مار ڈالا۔‘
ملزم پولیس اہل کار کا کہنا ہے کہ وہ کچھ عرصے سے ڈپریشن کا شکار تھا اور جب لڑکا اس سے بار بار پیسے مانگ رہا تو اسے غصہ آ گیا اس لیے ناراض ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا۔
داتیا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے ریاستی محکمہ پولیس کو خط لکھ کر اس واقعے کی تفصیل سے آگاہ کیا ہے اور مکتوب میں ملزم پولیس اہلکار کو ملازمت سے برخاست کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔
چھ برس کے جس بچے کا قتل کیا گیا، وہ بال کاٹنے والے ایک شخص کا بیٹا ہے اور قتل کی یہ واردات گزشتہ پانچ مئی کو ہوئی تھی۔ بچے کے اہل خانہ نے اسی دن مقامی پولیس تھانے میں گم شدگی کی شکایت درج کروائی تھی۔
ملزم روی شرما اس وقت داتیا میں ڈیوٹی پر تھے اور اسی دوران چھ برس کا ایک لڑکا ان کے پاس پہنچا اور کہا کہ اسے بہت بھوک لگی ہے، اس لیے کچھ کھانے کی چیز خریدنے کے لیے اسے پیسے چاہیں۔ لڑکے نے پیسوں کے لیے اصرار کیا تو پولیس اہلکار غصے سے بپھر گیا۔
بچے کے اصرار سے ناراض ہو کر روی شرما نے مبینہ طور پر گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد لڑکے کی لاش کو اپنی کار میں رکھ لیا اور شام کو جب پڑوسی شہر گوالیار واپس پہنچا، تو اسے ایک ویران علاقے میں پھینک دیا۔
چونکہ بچے کے والدین نے گمشدگی کی شکایت درج کر رکھی تھی اس لیے تفتیش کے دوران ہی پولیس کو اطلاع ملی کہ گوالیار کے وویکانند علاقے میں ایک لڑکے کی لاش بر آمد ہوئی ہے۔ لاش کی شناخت اسی چھ سالہ بچے کے طور پر ہوئی، جو داتیا سے لا پتہ ہوا تھا۔
اس کے بعد جب علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھا گیا تو تفتیش کاروں نے دیکھا کہ ایک شخص بچے کے ساتھ نامناسب برتاؤ میں مصروف ہے۔ بعد میں اس شخص کی شناخت کانسٹیبل روی شرما کے طور پر ہوئی۔ شرما کو حراست میں لیا گیا اور اس نے جرم کا اعتراف کر لیا۔
داتیا کے ایس پی امن سنگھ راٹھور نے بتایا کہ شرما نے مبینہ طور پر تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ وہ پچھلے کئی مہینوں سے ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور اسی لیے جب لڑکا پیسوں کا مطالبہ کرتا رہا تو ان سے اس طرح کا سخت رد عمل ظاہر کیا۔
پولیس کا بہیمانہ سلوک
ہندوستان میں پولیس کی زیادتیوں کے واقعات ایک عام بات ہیں۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے یو پی میں، جب ایک 13 برس کی بچی اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی شکایت درج کرانے پولیس اسٹیشن پہنچی تو مبینہ طور پر تھانہ انچارج نے تھانے کے اندر ہی اس بچی کا پھر ریپ کر دیا۔
قانونی امداد فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق مذکرہ بچی کا تعلق دلت برادری سے ہے، جو اپنے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی کے واقعے کی شکایت درج کرانے کے سلسلے میں تھانے پہنچی تھی۔ تاہم وہاں پولیس نے ہی اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے سلسلے میں پولیس افسر کے ہمراہ چار دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن میں متاثرہ لڑکی کی ایک رشتہ دار خاتون بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انتیس ایسے پولیس اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے معطل کر دیا گیا ہے جو وقوعہ کے وقت تھانے میں موجود تھے۔