تحریر:نازش ہما قاسمی
ملک عزیز کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک طرف جہاں مہنگائی، بے روزگاری، بھکمری عروج پر ہے، تو وہیں دوسری طرف مسجد مندر، لائوڈ اسپیکر ،ہنومان چالیسا، حجاب ،چنری، لوجہاد، گھر واپسی کے نام پر آپس میں ہندو اور مسلمانوں کو الجھایاجارہا ہے، مین اسٹریم میڈیا صرف حکومت نہیں؛ بلکہ فرقہ پرستوں کی ترجمان بن کر تمام بنیادی مسائل کو عوام سے دور کر رکھا ہے اور انہیں بے جا و بے بنیاد مسائل میں الجھا کر حکومت کی واہ واہی لوٹ رہی ہے۔ ملک کے عوام بھی اپنے ذہن ودماغ سے سوچنے کے بجائے ان ہی چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں جنہیں حکومت اور میڈیا ہائی لائٹ کررہی ہے۔
عوام کو سوچنا چاہئے کہ ہم اس طرح ہندو مسلم میں کب تک جئیں گے، کب تک ہمارے گھر کی روزی روٹی چلتی رہے گی۔ ابھی رپورٹ آئی ہے کہ بہار، یوپی اور دیگر جگہوں پر جہاں الیکشن سے قبل فری راشن مل رہے تھے وہ اب بند کردئیے گئے ہیں حکومت نے بہت بڑی تعداد میں راشن کارڈ منسوخ کردئیے ہیں۔ اب وہ لوگ جو چند کلو راشن کی وجہ سے حکومت کو واپس لائے تھے ان کے پاس کیاجواز رہ گیا ہے، انہیں اب کیا سمجھ آرہا ہوگا۔ راشن کارڈ کی منسوخی کے لئے جو معیار متعین کئے گئے ہیں وہ موجودہ دور میں تقریباً ہر فرد کے پاس ہے، اگر ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں تو صرف وہ بنجارے ہیں جن کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ ملک کے عوام کو مستقبل کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے حال کے جال کے میں الجھ کر تمام بنیادی مسائل سے نظریں پھیرے ہوئے ہیں۔
بعید نہیں کہ بھکمری، بے روزگاری اور دیگر ضروریات زندگی کے مہنگے ہونے کی وجہ سے یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات ہوجائیں؛ لیکن ان حالات سے نپٹنے کےلیے عوام کے پاس نہ کوئی راہ ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل ، بس الجھے پڑے ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں اور دیگر ایجنڈوں پر اپوزیشن کڑی نگاہ رکھتی ہے؛ لیکن یہاں تو اپوزیشن بھی چارو خانے چت نظر آرہی ہے، کانگریس جو ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ہے اور جس کا جنگ آزادی میں بھی کردار رہا ہے وہ اب اپنے گنے چنے دن گننے پر مجبور ہے۔ ایک طرف جہاں حکومت تمام تر ناکامیوں کو کامیابی میں بدل کر 2024 کے الیکشن میں پھر سے اقتدار میں آنے کےلیے کمر بستہ ہوگئی ہے وہیں دوسری طرف کانگریس نے بھی 2024 کی تیاریاں شروع کردی ہیں؛ لیکن کانگریس کا حال یہ ہے کہ اس کے قدیم اور پرانے رفقاء اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں جس سے پارٹی کی شبیہ متاثر ہورہی ہے اور چند سیکولرازم پسند عوام بھی بدظن ہورہے ہیں کہ یہ کیا بی جے پی کو مات دے گی جس کے خود کے سپہ سالار اور وفادار سپاہی میدان چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں جارہے ہیں۔
یہاں سب سے بڑا کردار عوام کا ہوناچاہئے، ہندو مسلم کی لڑائی بہت ہوگئی۔یہ ذہن نشیں کرلیں کہ ہندوستان بنا مسلمان کے اپنا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ یہاں ہزاروں سال پرانی مسلمانوں کی تاریخ ہے اور یہ مسلمان یہیں رہنے والے ہیں، یہاں سے اگر انہیں جانا ہوتا تو 1947کے پر آشوب دور میں ہی چلے جاتے؛ لیکن ان کے آباواجداد نے جو دور رس فیصلہ کیا تھا وہ یہی تھا کہ یہاں سے کسی بھی حال میں ہجرت نہیں کرنی ہے ، جنہیں جانا تھا چلے گئے؛ اس لیے اب پاکستان چلے جائو کا جو لوگ نعرہ لگاتے ہیں وہ محض ملک کےعوام کو گمراہ کرتے ہیں، اور انہیں دھوکے میں رکھنے کےلیے ایسے ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے اپنا رہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان سے آئے چند خاندان ہندوستانی شہریت لیے بنا واپس لوٹ گئے اور وہ لوگ جو ہندو مسلم ، مسجد مندر کا نعرہ لگارہے ہیں وہ ہندوئوں کے ہمدرد ہوتے، دلتوں کے غمگسار ہوتے، پریشان حال لوگوں کے پرسان حال ہوتے تو ان لوگوں کو شہریت دے کر ان کی جان ومال کی عزت وآبرو کی حفاظت کرتے، انہیں بے یارومددگار چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور نہیں کرتے۔
یہ فرقہ پرست لوگ ان نعروں اور ہتھکنڈوں سے اپنی سیاسی بساط وسیع کررہے ہیں ، نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ آسام بےحال ہے، کشمیر برباد ہے، بنگال بدحال ہے، بہار اور یوپی میں بھکمری وبے روزگاری عروج پر ہے ان کی پریشانیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہندوستان کے ’وشو گرو‘ ہونے کا دعویٰ کیاجارہا ہے کیا یہی ’وشو گرو‘ کی علامت ہے ، پہچان ہے کہ ملک کے عوام دانے دانے کو ترسیں اور ان کے ٹیکس اور پیسوں سے عوام کے نام نہاد حکمراں عیش وعشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں، انہیں آپ کی پریشانیوں کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے بس وہ آپ کو الجھائے رکھناچاہتے ہیں، بابری مسجد کا معاملہ عدالت نے حل کردیا مسلمانوں نے بھی ملکی مفاد میں صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی؛ لیکن فرقہ پرست افراد کو ملک میں طویل حکمرانی کےلیے پھر ایسے مدعے اور مسائل کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے ووٹ بینک کو متحد کیاجاسکے اور انہوں نے اپنی چالوں اور ایجنڈوں سے متھرا شاہی عیدگاہ، گیان واپی مسجد ، قطب مینار ، تاج محل اور دیگر مساجد کا شوشہ چھوڑ کر عوام کو الجھاناشروع کردیا ہے اور عوام کی بڑی تعداد ان مسائل کو ہی بنیادی مسائل سمجھ کر الجھ بیٹھے ہیں ۔ اگر اسی طرح الجھے رہے تو وہ دن دور نہیں ہے جب گھر گھر سے فاقوں ، بھکمری اور بے روزگاری سے مرنے والوں کی خبریں آئیں گی اس لیے ضرورت ہے کہ ملکی مفاد میں اُٹھ کھڑے ہوں اور ملک کی سالمیت کےلیے، گنگا جمنی تہذیب کی بقا کےلیے جس طرح انگریزوں کو یہاں سے بھگایا تھا اور ملک کو بچایا تھا اسی طرح اب ان فرقہ پرستوں کے خلاف اٹھیں اور ملک کو بچالیں یہی ہندوستان کے کثیر النوع تہذیب کی روایت رہی ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)