تحریر:مفتی محمد اشفاق قاسمی
ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس ہے جس نے سب سے لمبے عرصے تک ملک پر حکومت کی ہے، اور اب ملک بی جے پی کے قبضے میں ہے جس کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔ مگر مسلمانوں کی پستی اور زبوں حالی وپسماندگی کی اصل ذمہ دار کانگریس پارٹی ہے جس کو مسلمان ہمیشہ ووٹ دیتے رہے اور استحصال کا شکار بھی ہوتے رہے، اسی کے دور حکومت میں بے شمار فسادات ہوئے اور مسلمانوں سے جیلوں کو بھرا گیا یہاں تک کہ بابری مسجد کی شہادت کا دھبہ بھی اس کے دامن پر ہے، بچی کھچی کسر بی جے پی نے پوری کردی اور منصوبہ بند طریقے سے کرتی جارہی ہے، ایک بڑے سیکولر لیڈر جناب لالو پرساد یادو جی ہیں جنہوں نے مسلم یادو اتحاد کا نعرہ دیا او ربہار پر ۱۵ برس حکومت کی، سارے ایم ایل اے یادو ہوئے، مسلمان تو دس بارہ سے آگے نہ بڑھ سکے، یہی حال بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا ہے جن کو ہمیشہ مسلمانوں کا ووٹ ملا، ادھر یوپی کے ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کو لے لیجئے، دونوں اپنی ذات والے اورمسلمانوں کے سہارے یوپی کے وزیر اعلیٰ بن گئے، اور دلت قوم ترقی کرکے پارلیمنٹ تک پہنچی مگر مسلم قوم وہیں کی وہیں رہ گئی۔
آج اگر سروے کیاجائے تو ایم پی، ایم ایل اے، فوج، پولس، ریلوے، اور تمام سرکاری محکمہ جات میں مسلمانوں کی تعداد دو فیصد بھی نہیں ہے، جبکہ ملک میں مسلمانوں کی حصہ داری ۲۵ فیصد سے زائد ہے۔
اس پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمارا ووٹ لیا پھر ہمیں ہی بے سہارا چھوڑ دیا، ہمیں حکومت میں ساجھے داری کبھی نہیں دی، نہ کسی مسلم کو بڑے لیڈر کے طو رپر ابھرنے کا موقع دیا بلکہ چند مسلم چہروں کو قوم کا نمائندہ ظاہر کرکے اپنی پارٹی کے نفع کےلیے استعمال کرتی رہی، کسی دانشور نے اس کی مثال اس طرح دی جیسے بریانی بنانے کےلیے لونگ، الائچی، دار چینی ضروری ہے اس کے بغیر بریانی تیار نہیں ہوسکتی مگر بریانی تیار ہونے کے بعد کھاتے وقت سب سے پہلے ان گرم مصالحہ کو پھینک دیاجاتا ہے یہی حال مسلمانوں کا ہے الیکشن تک ان کی بڑی قدروقیمت رہتی ہے پھر جب الیکشن میں جیت ہوجاتی ہے تو انہیں پس پشت ڈال دیاجاتا ہے، اور پانچ سال تک ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا۔
ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کی بھی کوئی سیاسی پارٹی ہو یا ایسی پارٹی جس میں ملک کی تمام قومو ںکی نمائندگی کو مگر اس کے بڑے ذمہ داران اور عہدیداران مسلمان ہوں۔ اس سلسلے میں نمائندہ جماعت کے طور پر مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی ہے جو آسام میں کامیاب سیاست کررہی ہے۔
اس وقت ملک میںجناب اویسی صاحب کی مجلس کی دھوم ہے، میں ذاتی طو رپر ان کی جدوجہد اور قربانی وجذبہ کی قدر کرتا ہوں مگر ان کی پارٹی کے نام سے اتفاق نہیں کرتا، صرف مسلمانوں کے نام پر اس ملک میں کامیاب سیاست نہیں کی جاسکتی جب تک کہ تمام قوموں کو لے کر نہ چلاجائے۔ ان کی پارٹی کو بی جے پی کا ایجنٹ کہاجاتا ہے غیر تو غیر خود مسلمان بھی اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں، ان کو ایجنٹ کہنے والے وہی لوگ اور وہی پارٹیاں ہیں جو مسلم ووٹ کو اپنا حق سمجھتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ان کی جیت مسلمانوں کے ہی ووٹوں سے ہوتی تھی اس لیے اویسی کے میدان میں آنے سے ان کا ووٹ بینک ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ، تو ان کی ہار بھی یقینی ہے اس لیے وہ مجلس کو بدنام کرکے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرناچاہتے ہیں۔
ذرا عقل سے کام لیجئے ہمیں تسلیم ہے کہ اویسی صاحب کے میدان میں آنے سے نام نہاد سیکولر پارٹی کا نقصان ہوجاتا ہے اور بی جے پی کا فائدہ تو اس کی ذمہ دار سیکولر پارٹیاں خود ہیں، وہ اویسی صاحب کو ایک قدآور لیڈر مان کر ان کو اپنے ساتھ شامل کرکے کچھ سیٹیوں پر اتقاق کیوں نہیں کرتی جہاں آٹھ فیصد، دس فیصد، چار فیصد والی ذاتوں اور قوموں کے لیڈران کو اتحاد میں شامل کیاجاتا ہے مگر ۲۰ فیصد سے زائد مسلمانوں کو شامل نہیں کیاجاتا یہ تو کھلی ہوئی مسلم دشمنی کی دلیل ہے اس کے پیچھے وہی ذہنیت کار فرما ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ لیاجائے مگر اس کے لیڈر کو اُبھرنے نہ دیاجائے۔
اس ملک کا مسلمان مالک ہے، اس کا وفادار ہے یہاں کی مٹی میں مسلمانوں کا خون شامل ہے، یہ قوم اس ملک کی بہترین خدمت کی ہے اور کرسکتی ہے تو ضرورت ہے کہ مسلم قیادت وسیادت کو مضبوط کیاجائے مسلمان یک طرفہ طور پر ووٹ دیں تاکہ مسلم لیڈر شپ مضبوط ہو۔
جب ہر قوم اور ہرذات کی سیاسی پارٹی ہے تو مسلمانوں کی کیوں نہیں؟ یاد رکھئے، موجودہ کوئی بھی سیاسی پارٹی آپ کی نہیں ہے، سب کو آپ کا صرف ووٹ چاہئے کسی نے ڈرا کر، کسی نے دھمکا کر کسی نے قتل وغارت گری کرکے کسی نے بہلا پھسلا کر ہمارا ووٹ حاصل کیا ہے اور کررہ ہیں مگر ہمارا مخلص ساتھی اور وفادار دوست کوئی نہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)