تحریر:شمسہ بتول
اگر ہم اسلام سے قبل عورت کی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ عورت کو کس قدر حقیر اور کمتر جانا جاتا تھا ۔ عورت کو آزادٸ راۓ کا کوٸ حق حاصل نہ تھا نہ ہی اس کی کوٸی عزت اور مقام تھا۔ بیٹی کی پیداٸش کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ مگر پھر عرب میں ایک چاند نمودار ہوا جسے دنیا محمد صلى الله عليه واله وسلم کے نام سے جانتی ہے اس ہستی کی آمد تھی کہ جہالت کے ساۓ جھٹنے لگے اور انسانیت کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ ممحمد صلى الله عليه واله وسلم نے لوگوں کو بتایا کہ بیٹی بوجھ نہیں بلکہ رحمت ہے۔ انہوں نے اسلامی قوانین کے نفاز کو یقینی بنایا اور اسلام میں خواتین کو جو حقوق حاصل تھے دنیا کو اس سے روشناس کروایا۔
اسلام نے تعلیم، وراثت اور پسند نا پسند اور نکاح میں بھی حق دیا کہ اگر وہ چاہے تو ہاں کرے اور اگر اس کی مرضی شامل نہ ہو تو زبرددستی نکاح نہیں کرو غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تمام حقوق دیے ہیں ۔ کسی بھی مرد کو عورت کی تزلیل کا حق حاصل نہیں ۔ اسلام نے اسے عملی طور پر ثابت کیا اور بتایا کہ عورت جس بھی روپ میں ہو وہ معاشرے کے لیے قابل احترام ہے اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک مرد کو ۔ عورت ماں ہے تو اسکے قدموں تلے جنت رکھ دی اور اگر بیٹی ہے تو فرمایا کہ یہ باعث رحمت ہے اور اگر بہن ہے تو وفا کا پیکر ہے اور اگر بیوی ہے تو تمہارا ایمان
مکمل کرتی ہے. اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب جیسی جیسے پروان چڑھی۔
عورتوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کارہاۓ نمایاں سرانجام دیے۔
حضرت خدیجہؓ اپنے وقت کی مشہور کاروباری خاتون تھیں اور عاٸشہؓ وہ روشن مثال ہیں جن کے زریعے امت تک احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ پہنچا اور اسی طرح میڈیکل ساٸنسز اور علم جراحی اور سرجری میں حضرت رفیدہؓ کا نام معتبر ہے اور دستکاری اور صنعت و حرفت کے شعبے میں حضرت زینبؓ بنت حجش کا نام شامل ہے غرض یہ کہ خواتین نے ہر شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور ان فنون کے ساتھ ساتھ بہت سی خواتین ایڈمنسٹریشن کے مناصب پر بھی فاٸز رہیں۔ خواتین انتظامی عہدوں پر بھی فاٸز ہو سکتی ہیں اسلامی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سلطان صلاح الدین کی بھتیجی سیدہ حنیفہ حلب کی والیہ رہیں اور شریفہ فاطمہ یمن صنعا اور نجران کی والیہ رہیں اور اس کے علاوہ جنگی محاز پر بھی خواتین نے فراٸض سرانجام دیے ۔ عزرہ بنت حارث نے اہل بیسان سے لڑاٸی میں لشکر کی قیادت کی اور ام عطیہؓ نے محمد صلى الله عليه واله وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ام حرام بنت ملحان پہلی بحری مجاہدہ تھیں ۔ ان تمام کارناموں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کے کردار ان
کے علم و ہنر کی قدر کی اور اسے سراہا۔ حضرت عمرؓ کی مجلس شوریٰ میں خواتین کو بھی نماٸندگی حاصل تھی۔ اور انہیں آزادی راۓ کا حق دیا گیا تھا کہ وہ بلا خوف خطر اپنی راۓ دے سکتی اور اپنا حق لے سکتی ہیں اس کی بہت عمدہ مثال ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے عورتوں کے حق مہر کی تعداد متعین کرنے پر راۓ لی تو مجلس شوریٰ میں ایک عورت اُٹھ کھڑی ہوٸی اورکہا کہ آپ کو یہ اختیار نہیں کہ آپ مہر کی مقدار متعین کریں جبکہ قرآن میں ہمیں یہ حق دیا گیا ہے تو عمرؓ نے فرمایا کہ یہ عورت ٹھیک کہتی ہے ۔
برطانیہ نے 1918 میں عورت کو ووٹ کا حق دیا ۔ امریکہ نے 1920 کے بعد انیسویں آٸینی ترمیم میں عورت کو ووٹ کا حق دیا اور نیوزی لینڈ میں 1893 میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا جبکہ اسلام نے ان سب سے پہلے عورت کو راۓدہی کا حق دیا۔
نوع انسانی میں اسلام نے سب سے پہلے خواتین کے حقوق متعارف کرواۓ اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی طاقت کے زور سے کسی کی حق تلفی کرے۔ہمیں ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنے کی بجاۓ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔ اسلام نے جو حقوق اور حدود مقرر کی ہیں ہمیں عملی زندگی میں ان کا نفاذ کرنا ہو گا تا کہ حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ معاشرے کا قیام عمل میں آسکا