حکیم نازش احتشام اعظمی
ہندوستان میں وقف ( بورڈ ) ایک حکومتی ادارہ ہے جو مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی امور کے لیے وقف املاک یا اثاثوں کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتا ہے ہے۔ مسلمانوں میں اجتماعی مفادات اور معاشرتی فلاح و بہبود کے فروغ کیلئے اپنی جائداد اور اثاثے وقف کرنے کی ایک قدیم روایت ملتی ہے جو مسلم عہد حکومت سے چلی آ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں کثیر تعداد میں وقف املاک پائی جاتی ہیں۔لیکن حکومت نے وقف املاک کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں جو بل پیش کیا اور جو اس وقت پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیر غور ہے اس نے مسلم معاشرے میں ایک اضطراب کی کیفیت پیدا کر رکھی ۔ہم نے یہاں وقف کی موجودہ صورت حال اور اس کے بارے میں ہندوستانی حکومت کی مجوزہ پالیسیوں کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کی ہے.
قانونی تعریف کے مطابق وقف ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک شخص اپنی جائداد یا املاک کو کسی مذہبی یا فلاحی مقصد کے لئے دائمی طور پر مختص کر دیتا ہے اور اس کے مالکانہ حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اس وقف کے تحت وہ جائداد کا مالک نہیں رہتا اور کسی خاص مقصد کے لئے وہ جائداد مخصوص ہو جاتی ہے، اس طرح کی املاک عام طور پر مسلمانوں کے معاشرتی ،سماجی ،تعلیمی اور مذہبی کاموں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
وقف عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "روک دینا” یا "تھام لینا”۔ شریعت اسلامی میں وقف سے مراد وہ عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنی جائیداد یا دولت کو اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے مختص کر دیتا ہے تاکہ وہ ملی فلاح و بہبود کے کاموں میں آ سکے۔ اس جائیداد یا مال کا مالک اب وہ شخص نہیں رہتا، بلکہ یہ اللہ کے نام پر وقف ہو جاتا ہے اور اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے
وقف اسلام میں ایک ایسی اہم عبادت اور صدقہ جاریہ ہے جسے دین میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔۔ وقف کی جائیداد نہ تو بیچی جا سکتی نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔
اصطلاحی طور پر وقف سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ملکیت کو ہمیشہ کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر عام بھلائی اور نیک کاموں کے لیے مخصوص کر دے۔ وقف شدہ چیز کا اصل ہمیشہ کے لیے برقرار رہتا ہے اور اس کے فوائد لوگوں کو ملتے رہتے ہیں، جیسے زمین، عمارت، باغ وغیرہ کا وقف کر دینا تاکہ اس کا فائدہ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں آ سکے۔
اگرچہ قرآن مجید میں لفظ "وقف” کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ہے لیکن صدقہ، خیرات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیبات وقف کے مفہوم سے بہت قریب ہیں اور احادیث میں بھی وقف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے وقف کے عمل کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے ۔
وقف کی شرعی بنیاد قرآن و حدیث سے مستنبط ہے۔ قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حدیث میں بھی کئی روایات موجود ہیں جو وقف کی فضیلت اور اس کے طریقہ کار کو بیان کرتی ہیں۔ ایک مشہور حدیث کے مطابق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خیبر میں ملنے والی زمین کو وقف کیا تھا جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منظور فرمایا تھا۔
وقف کو دو طرح سے تقسیم کیا جا سکتا ہے: وقف عام: جس میں مال یا جائیداد کو عام فلاحی مقاصد کے لیے مختص کیا جاتا ہے جیسے کہ مسجد، مدرسہ، یا اسپتال کے لیے۔
وقف خاص جس میں مال یا جائیداد کو کسی خاص شخص یا خاندان کے لیے وقف کیا جاتا ہے، لیکن یہ عمومی وقف سے کم مقبول ہے۔
شرعی نقطہ نظر سے وقف کی کچھ اہم شرائط ہیں۔ مثلاً وقف کرنے والے شخص کو اس جائیداد کا مالک ہونا ضروری ہے۔ وقف کا مقصد جائز اور شرعی ہونا چاہیے۔وقف مستقل طور پر ہونا چاہیے، یعنی وہ جائیداد یا مال واپس نہیں لیا جا سکتا۔
ہندوستان میں وقف کا قانونی نظام برطانوی دور سے موجود ہے۔ برطانوی حکومت نے وقف کے انتظام کے لیے مختلف قوانین بنائے تھے جو آج بھی نافذ العمل ہیں۔ ان قوانین کے تحت وقف کی جائیدادوں کا انتظام ایک بورڈ کے تحت ہوتا ہے جو ریاستی یا مرکزی حکومت کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔
ہندوستان میں وقف کا قانونی پس منظر :
ندوستان میں وقف کے انتظام و انصرام کے لیے کئی قوانین اور ایکٹس بنائے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ہیں:
وقف ایکٹ 1923:
برطانوی دور میں یہ پہلا قانون تھا جس کے تحت وقف املاک کی رجسٹریشن اور نگرانی کے لیے ایک قانونی فریم ورک بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت وقف املاک کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور اس کی نگرانی کے لیے وقف بورڈز تشکیل دیے گئے تھے۔
وقف ایکٹ 1954:
آزاد ہندوستان میں اس ایکٹ کے تحت وقف املاک کے انتظام کے لیے مزید اقدامات کیے گئے۔ اس ایکٹ میں وقف بورڈز کی تشکیل، وقف املاک کی رجسٹریشن، اور ان کی نگرانی کے لیے مختلف قواعد و ضوابط وضع کیے گئے۔
وقف ایکٹ 1995:
یہ قانون وقف کے نظام میں اصلاحات اور شفافیت لانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے تحت ہر ریاست میں وقف بورڈز قائم کیے گئے اور ان کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت وقف املاک کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کا آغاز ہوا۔
وقف ایکٹ 2013 (ترمیم):
یہ ایکٹ وقف املاک کے بہتر انتظام کے لیے 1995 کے ایکٹ میں ترمیم کے طور پر آیا۔ اس کے تحت وقف بورڈز کو مزید اختیارات دیے گئے اور وقف املاک کی حفاظت اور انتظام کے لیے مزید سخت قوانین متعارف کرائے گئے۔
ہندوستان میں وقف املاک کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن ان کے انتظام میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ وقف املاک کو صحیح مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
بدانتظامی وقف املاک کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ وقف بورڈز میں مالی بے ضابطگیاں، املاک کی غلط رجسٹریشن، اور آمدنی کا صحیح استعمال نہ ہونا عام ہے۔ کرپشن کی وجہ سے وقف املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے، جس سے مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچتا ہے ۔
بہت سی وقف املاک پر غیر قانونی قبضے ہو چکے ہیں۔ غیر قانونی قابضین نے وقف کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے، اور یہ مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی اقدامات کیے ہیں، لیکن ابھی یہ اقدامات کافی نہیں ہے ۔
وقف املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی اکثر فلاحی منصوبوں اور مقاصد پر مکمل طور پر صرف نہیں کی جاتی۔ اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں تعلیم، صحت اور دیگر فلاحی خدمات کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ آمدنی کا غلط استعمال یا غیر موزوں منصوبوں پر خرچ ہونے کی وجہ سے وقف کی اصل مقاصد متاثر ہوتے ہیں۔
ہندوستانی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات
وقف ایکٹ 1995 وقف املاک کے انتظام اور نگرانی کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ریاستی سطح پر وقف بورڈز قائم کیے گئے ہیں، جو وقف املاک کی نگرانی اور انتظام کے ذمہ دار ہیں ۔ وقف املاک کے رجسٹریشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ املاک کی نگرانی اور شفافیت میں اضافہ ہو سکے۔ ڈیجیٹل ریکارڈنگ کے ذریعے وقف املاک کے انتظام میں بہتری آئی ہے۔
حکومت نے غیر قانونی قبضوں کو ختم کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی ہیں اور قانونی اقدامات کیے ہیں تاکہ وقف املاک کی حفاظت کی جا سکے۔چنانچہ وقف املاک کی ترقی اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں ان سے انتظام میں بہتری آئی ہے اور غیر قانونی قبضوں کی روک تھام میں مدد ملی ہے
غیر قانونی قبضوں کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی عدالتیں قائم کی ہیں اور قانونی کارروائی کے ذریعے قبضہ مافیا کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وقف املاک کے تحفظ کے لیے پولیس اور انتظامیہ کو بھی فعال کیا گیا ہے لیکن وقف کے نظام کی بہتری کے لیے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شفافیت اور جوابدہی کے نظام کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وقف املاک کا صحیح استعمال ہو سکے اور بدانتظامی اور کرپشن کی روک تھام کی جا سکے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقف املاک کے انتظام میں بہتری لا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے وقف املاک کا ریکارڈ بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکتا ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔اسی طرح حکومت، وقف بورڈز، اور مقامی کمیونٹی کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور شراکت داری کی ضرورت ہے۔ اس سے وقف املاک کی دیکھ بھال اور ان کے مقاصد کے حصول میں بہتری آ سکتی ہے۔
وقف املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی اکثر فلاحی منصوبوں اور مقاصد پر مکمل طور پر صرف نہیں کی جاتی۔ اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں تعلیم، صحت، اور دیگر فلاحی خدمات کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ آمدنی کا غلط استعمال یا غیر موزوں منصوبوں پر خرچ ہونے کی وجہ سے وقف کی اصلیت اور اس کے مقاصد متاثر ہوتے ہیں۔ دی۔ اس کے تحت ہر ریاست میں وقف بورڈز قائم کیے گئے جو وقف املاک پر نظر رکھتے ہیں
وقف املاک کی ڈیجیٹلائزیشن:
حکومت نے وقف املاک کی رجسٹریشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے اقدامات کیے ہیں تاکہ املاک کا ریکارڈ درست اور شفاف ہو۔ اس عمل کے ذریعے وقف املاک کے انتظام میں بہتری آئی ہے اور غیر قانونی قبضوں کی روک تھام میں مدد ملی ہے۔وقف کے نظام کی بہتری کے لیے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شفافیت اور جوابدہی کے نظام کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وقف املاک کا صحیح استعمال ہو سکے اور بدانتظامی اور کرپشن کی روک تھام کی جا سکے۔
ٹیکنالوجی کا کردار:
ڈیجیٹلائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقف املاک کے انتظام میں بہتری لا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے وقف املاک کا ریکارڈ بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکتا ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔
ہندوستان میں وقف کے انتظام کے لیے موجودہ قانونی فریم ورک "وقف ایکٹ 1995کے تحت قائم ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق ہر ریاست میں ایک وقف بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو وقف کی جائیدادوں کا انتظام و انصرام کرتا ہے۔ وقف بورڈ کے تحت ایک چیف ایگزیکٹو افسر ہوتا ہے جو وقف کی جائیدادوں کی دیکھ بھال، استعمال، اور ان سے ہونے والی آمدنی کا حساب رکھتا ہے
حکومت ہند وقف کی جائیدادوں کے بہتر انتظام اور ان سے منسلک تنازعات کو حل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً نئے قوانین اور ترامیم متعارف کرتی رہی ہے۔
وقف ایکٹ 1995 میں سب سے اہم ترمیم 2013 میں کی گئی تھی۔ اس ترمیم کا مقصد وقف جائیدادوں کا تحفظ، ان کی بہتر دیکھ بھال، اور وقف بورڈ کے کام میں شفافیت لانا تھا۔ اس کے تحت وقف جائیدادوں کی خریدو فروخت کے قوانین مزید سخت کیے گئے تاکہ ان کا صحیح استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
حکومت ہند کی طرف سے پیش کردہ موجودہ بل کا بنیادی مقصد وقف جائیدادوں کی نگرانی کو مزید مضبوط بنانا اور وقف بورڈ کے کام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر کرنا ہے۔ اس بل کے تحت وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ وہ غیر قانونی قبضوں کے خلاف فوری کارروائی کر سکیں اور وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکیں۔لیکن اس بل پر مختلف طبقوں سے مختلف رائے سامنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی حفاظت اور بہتر انتظام کے لیے مفید ثابت ہوگا، جبکہ بعض حلقے اسے مسلمانوں کے حقوق میں مداخلت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
موجودہ بل کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
وقف جائیدادوں کی مکمل فہرست بنانے کے لیے سروے کیا جائے گا تاکہ تمام جائیدادوں کا صحیح ریکارڈ دستیاب ہو۔
تمام وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ ان کی ملکیت اور استعمال کی تفصیلات باقاعدہ ریکارڈ پر موجود ہوں۔
وقف جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے ختم کرنے کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔
وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ وہ جائیدادوں کے انتظام و انصرام میں بہتری لا سکے اور وقف املاک کا صحیح استعمال یقینی بنایا جا سکے۔ اس بل کے ذریعے حکومت ہند نے وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے، لیکن اس پر مختلف آرا اور اعتراضات بھی موجود ہیں۔
کچھ مسلم جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بل پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو وقف جائیدادوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ خالصتاً ایک مذہبی معاملہ ہے۔
دوسری طرف،بل کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادوں کا غلط استعمال روکنے کے لیے حکومت کی مداخلت ضروری ہے اور یہ بل وقف بورڈ کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) اور عامہ المسلمین کا وقف بل کے حوالے سے مؤقف درج ذیل اہم نکات پر مبنی ہے:
عامہ المسلمین کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ حکومت وقف جائیدادوں کے انتظام میں مداخلت کر رہی ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق ناقابل قبول ہے۔ ان کے مطابق وقف ایک مذہبی عمل ہے اور اس میں حکومتی مداخلت اسلامی شعائر اور اس کے انتظامی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ وقف کا نظام خودمختار ہونا چاہیے تاکہ اس کی جائیدادیں اسلامی تعلیمات کے مطابق استعمال ہوں۔
وقف بورڈ کی خود مختاری کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ AIMPLB کا مطالبہ ہے کہ وقف بورڈ کو بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد رکھا جائے اور اسے مکمل خود مختاری دی جائے تاکہ وہ وقف جائیدادوں کو صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق منظم کر سکے۔ اس میں حکومتی یا غیر شرعی مداخلت کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ وقف جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ان کے مطابق، غیر قانونی قبضے اسلامی وقف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وقف جائیدادوں کے حقیقی مالکان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے تاکہ وقف کا اصل مقصد پورا ہو سکے۔ حکومت کو وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق، جب دوسرے مذاہب کی مذہبی تنظیموں میں غیر مسلم ممبران شامل نہیں کیے جاتے، تو وقف بورڈ میں غیر مسلمین کی شمولیت بھی غیر مناسب اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ضلع انتظامیہ کی مداخلت کو AIMPLB اور عامہ المسلمین نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، ضلع انتظامیہ کو وقف جائیدادوں کے معاملات میں کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں حکومت وقت کو جائیدادوں پر قبضہ کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ وقف جائیدادوں کو صرف اسلامی تعلیمات کے مطابق چلانا اور منظم کرنا ہی درست ہے۔