مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
قرآن کریم اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے آخری نبی محمد ؐ پر نازل آخری کتاب ہے، اب کوئی نہ دوسرا رسول آئے گا اورنہ دوسری کتاب الٰہی،اس لئے اللہ رب العزت نے خود ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی،تاکہ پہلے نازل شدہ تین آسمانی کتابوں کی طرح کوئی اس میں تحریف اورتبدیلی نہ کرسکے،ارشاد باری ہے :ہم نے اسے نازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،اللہ رب العزت بغیر اسباب کے قرآن کریم کی حفاظت پر قادر ہیں،ہمارا ایمان ویقین ہے ،لیکن اللہ رب العزت نے اس کائنات کا جونظام بنایاہے اس میں اسباب ووسائل کی بھی اپنی اہمیت ہے،اسی لئے اپنی قدرت کاملہ کے باوجود اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کے لئے حفاظ کرام،مخارج حروف اورلحن کی حفاظت کے لئے مجودین اورقراء کرام ،الفاظ کے معانی کی حفاظت کے لئے محدثین اورمفسرین، آیات ربانی سے احکام الٰہی کی تخریج کے لئے فقہاء کرام اوررسم الخط کی حفاظت کے لئے علماء رسم الخط کو پیدا کیا،ان میں سے بہت حضرات قرآن کریم سے متعلق کئی کئی علوم وفنون کے ماہر تھے،ان حضرات نے اسباب کے درجہ میں ہرسطح پر قرآن کریم کی حفاظت کا نظم کیا، بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کارسم الخط محفوظ نہیں ہے ،حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، اگر رسم الخط محفوظ نہ ہوتا توپوری دنیاکے چھپے ہوئے قرآن کریم میں سورہ فاتحہ کی آیت میں مٰلک یوم الدین الف کے بغیر اورمالِ ھذ االکتاب پورے لام سے نہیں لکھاجاتا،اس قسم کی بہت ساری مثالیں شاطبیہ اوراس فن پر لکھی گئی دوسری کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں، یہ حفاظت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام الہی ہے۔اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو جواس کے کلام الہی میں شک کرتے تھے ،پہلے دس سورہ ،پھر دس آیت اورآخرمیں ایک آیت ہی اس قسم کی بناکر لانے کے لئے چیلنج دیا، چودہ سوسال سے زائد گذرنے کے بعد بھی یہ چیلنج آج بھی قائم ہے، عرب اپنی فصاحت اوربلاغت لسانی کے باوجود حیران وشصدر رہ گئے اورایک آیت قرآن کریم کی طرح بناکر لانے سے بھی عاجز ودرماندہ رہے، قیامت تک یہ عاجزی درماندگی باقی رہے گی اوراس چیلنج کا جواب کسی کے بس میں نہیں ہے۔
بعد میں ہندوستان میں کئی سرپھرے ایسے سامنے آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات کے معانی ومطالب کو اس کے شان نزول اورحقیقت واقعہ سے الگ کرکے پیش کیا اوران آیتوں کو جو دشمنوں کے مقابلے کے لئے تھیں ،ان کوتشدد پھیلانے کا ذریعہ قراردیا، اوریہ معاملہ ان لوگوں کی طرف سے آیاجن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ ہیں اورجن کے نزدیک ہجومی تشدد کے ذریعہ سرراہ کسی کوبھی مارڈالا جاتاہے۔
ماضی قریب کا جائزہ لیں توایسے ہی سرپھرے لوگوں میں حیدرآباد کا باشندہ چاندمل چوپڑا تھا، اس کا جب کھوپڑا خراب ہواتواس نے ۱۹۸۵ء میں شرپسندوں کے اکسانے پر کلکتہ ہائی کورٹ میں قرآن کریم پر پابندی لگانے کا مقدمہ دائر کیا،یہ مقدمہ کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج پدما خستگیر کے یہاں دائر ہوا،انہوں نے اس مقدمہ کو سماعت کے لئے قبول کرلیا،چیف جسٹس نے اس مقدمہ کو جسٹس بساک کی عدالت میں بھیج دیا، مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے حکومتی سطح سے اس کیس کو لڑا، مسلمانوں نے خاموشی اختیار کی، اپنا وکیل بھی کھڑا نہیں کیا ، سرکاری وکیل اورایڈوکیٹ جنرل نے جو موقف اخیتار کیاوہ یہ تھاکہ جن آیات کو بنیادبناکر مقدمہ کیا گیاہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوگی، بحث کا موضوع صرف یہ ہوگاکہ کیاکسی آسمانی کتاب پر مقدمہ چل سکتاہے؟جسٹس بساک نے تھوڑی ہی دیر میں چاندمل کا مقدمہ خارج کردیااورفیصلہ دیاکہ کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چلایاجاسکتا۔
اب پھر سے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیرمین وسیم رضوی کا دماغ خراب ہواتواس نے سپریم کورٹ میں چھبیس(۲۶) آیتوں کے نکالنے کے لئے مقدمہ کیاہے،اس مقدمہ کا مقصد سستی شہرت کاحصول اوراپنی مدت کار میں گھوٹالے اوربدعنوانیوں کی طرف سے نظرہٹانا ہے، اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرکے دوبارہ کسی عہدے پر براجمان ہوناہے، لیکن اس پر یہ مقدمہ الٹا پڑگیاہے، پورے ہندوستان میں اس پر تھوتھو ہورہی ہے، اورخود اس کی کمیونٹی کے شیعوں نے اسے اپنے سے خارج کردیاہے، اس کی والدہ ،بہن،بھائی وغیرہ نے بھی اس سے براء ت کااظہار کردیاہے اورخبر ہے کہ اس کمینے سے اپنا رشتہ منقطع کرلیاہے، اس مقدمہ کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں بیرون ہندبھی اس پر لعن طعن کی کثرت ہورہی ہے، یقیناوہ ملعون اسی کامستحق ہے۔اس مقدمہ میں کولکاتا ہائی کورٹ کا فیصلہ نظیر بن سکتاہے اورہمارا موقف یہی ہے کہ قرآن کریم آسمانی کتاب اورکلام الہی ہے اس میں ترمیم ،تحریف اورکسی بھی قسم کی تبدیلی کا حق نہ تو کسی عدالت کو ہے اورنہ فرد کو، عام انسانی تصانیف میں بھی کسی دوسرے کو تحریف وترمیم کا حق نہیں ہوتا؛چہ جائیکہ جواحکم الحاکمین اورپورے عالم کے خالق ومالک کا کلام ہو اس پر کوئی عدالت کس طرح غور کرسکتی ہے اورکسی کواس کے مندرجات کو نکالنے کا حق کس طرح ہوسکتاہے،یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے ،جس کی وجہ سے روزانہ اخبارات میں مذمتی قرارداد اوروسیم رضوی پر ایف آئی آر درج کرنے کی خبریں آرہی ہیں،ایک صاحب نے وسیم رضوی کے سر کی قیمت گیارہ لاکھ لگادی ہے، ظاہر سی بات ہے غیرت وحمیت کے باوجود اس قسم کا اعلان صحیح نہیں ہے، اس معاملہ میں حکمت عملی اورطریقہ کار پر مسلم قائدین خصوصا حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم سے مشورہ بھی کرنا چاہئے ،تاکہ ناسمجھی اورجوش میں ہمارا کوئی قدم ہمیں ہی نقصان نہ پہنچادے۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(بشکریہ نقیب)