تحریر:زینب سکندر
جناب وزیراعظم!
بی جے پی کی سرپرستی اور حمایت حاصل کررہے ہندوتوا بریگیڈ قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ اس کے مقاصد اور کارروائیاں دونوں میں تضاد ہے۔ ’اسلامی‘ ڈھانچوں اور رسوم و رواج کے خلاف دائر عرضیوں میں سب سے تازہ وہ ہے جس میں مانگ کی گئی ہے کہ تاج محل کے نیچے کھدائی کرکے پتہ لگایا جائے کہ پہلے وہ ایک مندر تو نہیں تھا۔ دہلی کے قطب مینار کو بھی نہیں بخشا گیا ہے ۔ ایسے دعووؤں کے حق میں حقائق اور شواہد اکثر وہاٹس ایپ پر فارورڈ کئے گئے پیغامات میں ہی پائے جاتے ہیں
۔
اسی طرح مساجد اور ان کے نیچے دبے مندروں کے دعوؤں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے اوران کے خلاف دائر ہر درخواست کو میڈیا زیادہ سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ ایک وارانسی کی گیان واپی مسجد ہے اور پھر متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی ہے۔ محمد پور کا نام بدل کر مادھو پورم تو کر دیا گیا ہے، دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا چاہتے ہیں کہ انہوں نے جن تقریباً 40 گاؤں کای فہرست بنائی ہے ان کے نام بدل کر ہندو نام کئے جائیں۔
یہ سب کس لئے؟ کیا یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ آپ کی نظروں میں آجائیں اور بی جے پی میں اپنے لیے اچھی جگہ بنائیں؟ آخر کار بھگوا ہجوم کے بے قابو ہونے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب بی جے پی کے ایم پی جینت سنہا مرکزی وزیر تھے تب انہوں نے ان سات لوگوں کو مالاپہنا کر استقبال کیا تھا جن پر ایک گوشت تاجر کے قتل کرنے کا الزام تھا اور ہائی کورٹ نے ان کی سزا کو ملتوی کرتے ہوئے انہیں ِضمانت پر رہا کردیا تھا۔
ممبر پارلیمنٹ گری راج سنگھ ہندوستان کے مسلمانوں کو ’پاکستان جانے‘ کی ہدایت دیتے رہتے ہیں۔ دہلی فسادات سے پہلے اشتعال انگیز تقریر کرنے والے کپل مشرا کو کوئی سزا نہیں دی جاتی، جب کہ انوراگ ٹھاکر بے خوف ہوکر ’دیش کے غدروں کو….‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور ان کے حامی بی جے پی کی انتخابی میٹنگ میں’گولی مارو سال کو‘ کہہ کر نعرے کو پورا کرتے ہیں ۔ ٹھاکر کو یووا معاملوں اور اطلاعات و نشریات کا وزیر بنایا گیا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے زعفرانی بریگیڈ کے ارکان میں امید پیدا ہوتی ہے کہ اس سے وہ بی جے پی میں اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
جس اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہاں ڈومریا گنج کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ اس طرح کی ریلی کیسے کرسکتے ہیں جس میں ’ جب کٹوائے کاٹے جائیں گے تب رام رام چلائیں گے ۔‘ جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں؟ کیا ہ یہ مانتے ہیں کہ اس طرح کے کام کرنے پر آپ انہیں بی جے پی میں ترقی دینے کی بات کرنے کے لئے 7 لوک کلیان مارگ پر آنے کی دعوت دیں گے؟
کیا اب خاموشی نہیں توڑنی چاہیے؟
سوال یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو کب بتائیں گے کہ ایسی باتوں سے آپ کے من میں جوش نہیں بھرتا؟ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے وزیر اعظم بننے کی کوشش میں صرف ’وکاس‘ اور ’وشواس‘ کی بات کیوں کرتے۔ ایسا دو بار ہوا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے آپ کی ہمدردی کی داستانیں سنائیں۔ آخرکار، ہر ایک کو احسان کا پیغام دینے کے لیے ’مور کو کھانا کھلانے‘ کا موقع نہیں ملتا۔ اب مجھے حیرانی نہیں ہوگی اگر بی جے پی کارکنان آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے موروں کو زبردستی چارہ کھلانے کی ویڈیو جاری کرنا شروع کردیں۔ ہندو بائیں بازو واقعی آپ کے پیغام کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنے ’من کی بات‘ پروگرام میں ان لوگوں سے لوگوں کی زندگیوں، یادگاروں، مساجد، کھانے، حجاب، مسلمانوں کی شادیوں وغیرہ پر حملے بند کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہندوستان اپنی تقدیر اسلام سے جڑے تقریباً 200 کروڑ مسلمانوں سے یا جو ساتویں صدی میں ہندوستان آئے تھے سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ مسلمان یہاں 12ویں صدی میں آباد ہوئے تھے جب یہ ملک مختلف سلطنتوں میں بٹا ہوا تھا۔ اگر ہندوتوا کا ہجوم یہ سمجھتا ہے کہ وہ 900 سال کی تاریخ کو مٹا سکتا ہے تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب آپ کی خاموشی سے آپ ان مسلم مخالف بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں اور ان جنونیوں کو ووٹروں کے ذہنوں میں ایسی خواہشات پیدا کرنے کی اجازت دے رہے ہیں جو پوری نہیں ہو سکتیں۔
مسلمانوں کے خلاف ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جو نفرت کا زہر اگلا جا رہا ہے وہ زمین پر بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ تہذیبی بالادستی کی جستجو ایودھیا تنازع کو رام جنم بھومی تحریک کے حق میں حل کرنے اور وہاں ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر سے پوری ہو جائے گی۔ لیکن کون جانتا تھا کہ یہ صرف ایک طویل مندر کی تحریک اور بہت سی مساجد پر حملہ کرنے اور تباہ کرنے کی مہم کا آغاز تھا۔ لیکن تاریخ ان مہمات کو اسی طرح یاد رکھے گی جس طرح آج ہمیں طالبان کے ہاتھوں بامیان میں بدھا کے مجسموں کی مسماری یاد ہے۔ اس نے یہ سب کچھ ’عقیدہ‘ کے نام پر بھی کیا۔ وزیر اعظم، ہندوستان اسی اندھے کنویں پر نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے نتائج صرف مسلمانوں کے لیے بھیانک نہیں ہوں گے۔
اپنی آواز اٹھائیں اور ہندوتوا بریگیڈ کے اس پاگل پن کو روکیں۔ آپ کی خاموشی کسی کو فائدہ نہیں دے گی، آپ کی شبیہ کو بھی نہیں۔
(بشکریہ : دی پرنٹ ہندی ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )