نئی دہلی:
برصغیر کے معروف ادیب ،اسکرپٹ رائٹر، ممتاز فکشن نگار اور ناول نگار مشرف عالم ذوقی کا آج مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ وہ گزشتہ کچھ دنوں سے کافی علیل تھے۔ ایک پرائریویٹ اسپتال میں انہیں دل کا دورہ پڑا اور صبح 11 بجے وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔پسماندگان میں اہلیہ اور بیٹاہے ، ان کی تدفین خوریجی کے قبرستان میں عمل میں آئی ۔ ان کی عمر تقریباً 58سال تھی۔ ان کی پیدائش 24نومبر 1963کو بہار کے ضلع آرہ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے مگدھ یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ قلم سے رشتہ نبھایا، انہوں نے دہلی میں سچ بالکل سچ میں بھی کام کیا اور اخیر میں راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر رہے۔ مگر اپنی بے باکی اور قلم کے تیکھے پن کی وجہ سے سہارا گروپ کے مالکان سے زیادہ دنوں تک نباہ نہ ہوسکا اور استعفیٰ دے کر چلے آئے۔ ویسے وہ ہمیشہ فری لانس صحافی رہے، وہ بنیادی طور پر دوردرشن کے لئے ٹی وی سیریل بناتے تھے اور قلم ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
ان کی تخلیق کینوس بہت وسیع اور ہمہ رنگ تھا۔ اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی وانسانی سروکاروں کی ان کی تحریر میں بھرپور ترجمانی ہوئی۔ وہ اپنے عہد کے گھٹن اور سیاسی ظلم و جبر کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے ۔ ان کی اردو کے علاوہ ہندی ودیگر زبانوں کے رسائل وجرائد میں بھی تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ان کی مطبوعات کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ ان کے 14ناول اور افسانے کے آٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حالات حاضرہ میں ان کے لکھے گئے ناول ’مرگ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ بہت مشہور ہوا ہے اور عالمی سطح پر ان کی پذیرائی ہوئی ہے اور ادیبوں کے درمیان موضوع گفتگو بھی بنا۔
ان کے ناول اور افسانے بہت مشہور ہوئے، ان پر متعدد پی ایچ ڈی ہوچکی ہیں۔ ان کے ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘ ’بیان‘،’مسلمان‘، ’لے سانس بھی آہستہ‘، ’آتش رفتہ کا چراغ‘،.’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘، ’نالہ شب گیر‘، ’ذبح‘، ’مرگ انبوہ‘اور موضوع بحث’مردہ خانے میں عورت‘ شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی لکھے۔ دیگر اصناف بھی انہوں نے کتابیں لکھیں۔ 1992میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔
ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ بھی افسانہ نگار ہیں ۔ان کے انتقال سے اردو دنیا میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے اور اردو دنیا ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار سے محروم ہوگئی ہے۔
مشرف عالم ذوقی متنوع اور مفنرد موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے۔ وہ سماج کی بھرپور عکاسی کرتے تھے۔ان کے ناول میں مسائل کا ذکر ہے جس کو آج دیب و شاعر اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول میں مختلف موضوعات کا حاطہ کیا ہے۔ انہیں ان کی علمی ادبی، تخلیقی خدمات کے اعتراف میں معتدد ایوارڈ سے نواز ا گیا۔
ان کے انتقال پر سرکردہ ادبی شخصیات نے اپنے تعزیت اور رنج وغم کااظہار کیا ہے۔