حیدر آباد : (ایجنسی)
ممتاز افسانہ نگار، نقاد اور استاد پروفیسر بیگ احساس (Professor Baig Ehsas )کا 73سال کی عمر میں حیدرآباد میں انتقال ہو گیا۔پروفیسر بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ تھا۔ 10 اگست 1948 کو ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے1975 میں بی اے اور1979میں ایم اے کیا اور1985 میں یونی ورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی۔1984 میں بحیثیت لکچرر اردو عثمانیہ یونی ورسٹی سے وابستہ ہوئے۔2000 میں پروفیسر کے عہدہ پر ترقی ملی۔2000 سے2006 تک صدر شعبہ رہے۔انہوں نے2007سے2013 تک سنٹر ل یونی ورسٹی حیدرآباد میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انھیں ہند و پاک مایہ ناز افسانہ نگاروں میں اہم مقام حاصل تھا۔ان کے افسانوں کے تین مجموعے خوشہ گندم، حنظل اور دخمہ شائع ہوئے۔ ”دخمہ“ پر2017میں ساہتیہ اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا۔
مخدوم محی الدین اورجیلانی بانوکے بعد پروفیسر بیگ احساس حیدرآباد سے ساہتیہ ایوارڈ پانے والے تیسرے ادیب تھے۔ ان کی دیگر تصانیف میں شور جہاں، کرشن چند ر فن و شخصیت اور شا ذ تمکنت پر مونو گراف شامل ہیں۔ وہ حیدر آباد لٹریری فورم کے معتمد عمومی اور صدر رہے۔ وہ بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سر پرست تھے۔ادارہ ادبیات اردو کے رکن عملہ اور ترجمانماہ نامہ ”سب رس“کے تا حال ایڈیٹررہے۔وہ ساہتیہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی براے اردو کے رکن رہے۔
مرحوم پروفیسر بیگ احساس کی نمازِ جنازہ عائشہ مسجد، پیرا ماؤنٹ ہلس، ٹولی چوکی، حیدرآباد میں عشا کی نماز کے فوری بعد ہوگی۔ تدفین پیراماؤنٹ ہلس قبرستان، ٹولی چوکی میں ہی عمل میں آئیگی ۔
2005سے2012تک بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے رکن کے طورپر انہوں نے ذمہ داری سنبھالی۔ اس کے علاوہ مختلف جامعات کی کمیٹیوں اور انجمنوں کے رکن بھی رہے۔ تلنگانہ اردو اکادمی کی جانب سے انھیں مخدوم ایوارڈ برائے کارنامہ حیات دیا گیا۔ انہوں نے پاکستان، سعودی عرب اور برطانیہ کا دورہ بھی کیاتھا۔ ہندوستانی بزم اردو ریاض، سعودی عرب نے پروفیسر بیگ احساس کے اعزاز میں تقریب منعقد کرکے ڈیجیٹل سوونیر جاری کیا۔
پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لیے ہندوستان کی متعدد جامعات میں پروفیسر بیگ احسا س کی شخصیت اور فن پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ ادبی رسالوں نے خصوصی نمبر اور گوشے شائع کئے۔ان کے افسانے ہندستان کی کئی جامعات میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں شامل ہیں۔صحافت سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ”فلمی ستارے“ سے ہوا تھا۔ انھوں نے حیدرآباد کے روزناموں میں کالم نگاری بھی کی۔پروفیسر بیگ احساس کی موت پر اردو ادب کی سرکردہ شخصیات نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیاہے۔
جن میں سلام بن رزاق، شفیع مشہدی، سید محمد اشرف، پروفیسر غضنفر، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر فاروق بخشی،پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، فیاض احمد فیضی، سردار علی، محترمہ قمر جمالی، پروفیسر خواجہ اکرام، پروفیسر اشتیاق احمد،میر ایوب علی خاں، پروفیسر پی فضل الرحمٰن، غوث ارسلان، ممتاز پیر بھائی، پروفیسر غیاث ا لرحمٰن سید، ملکیت سنگھ مچھانا،پروفیسراحمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری،پروفیسر معین الدین جینابڑے، انور مرزا، سراج عظیم، ڈاکٹر قمر سلیم، ڈاکٹر محمود کاظمی، نگار عظیم،قیوم اثر، ڈاکٹر آمنہ تحسین،ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر مشرف علی، ڈاکٹر شمیم احمد، ڈاکٹر سید نجی اللہ، ڈاکٹر ابو شہیم خاں، ڈاکٹر احمد خاں، ڈاکٹر بی بی رضا، ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر جنید ذاکر، ڈاکٹر فہیم الدین احمد، ڈاکٹر خواجہ ضیا ء الدین، ڈاکٹر ناصر انصار، ڈاکٹر ریحان کوثر، ڈاکٹر نورالامین،ڈاکٹر ریاض توحیدی،ڈاکٹر فریدہ بیگم، مختار خاں، معین الدین عثمانی، طاہر انجم صدیقی، نثار انجم، ڈاکٹر جاوید رحمانی،ڈاکٹر احمد طارق،وسیم عقیل شاہ، ظہیر انصاری،اسمٰعیل گوہر، علیم اسمٰعیل،تنویر احمد تماپوری، محترمہ رخسانہ نازنین، ڈاکٹر فیروز عالم کنوینر بازگشت آن لائن ادبی فورم،، ڈاکٹر گل رعنا، ڈاکٹر حمیرہ سعیدقابل ذکر ہیں۔