تحریر:مفتی محمد خالد نیموی قاسمی
اللہ رب العالمین کے بعد جس ہستی کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے؛ وہ سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے.
مسلمانوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے؛ وہ تعلق تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بالا تر ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق، اس تعلق سے جو نبی کریم اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں. لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں.
سورہ احزاب کی چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ.
یعنی یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے لیے اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
ایک مسلمان پر دوسروں کے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دیگر تمام انسانوں کے مقابلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ قریب ہیں،
اس آیت کریمہ کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل روایت سے ہوتی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ، تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں۔(صحیح بخاری)۔
دوسرا حکم جو مذکورہ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا اس کا تعلق امہات المومنین سے ہے. اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بموجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں. چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا امہات المومنین کی تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہونے میں وہی مقام ہے جو سگی ماں کا ہے
اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتاً امت کی مائیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اشارتاً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا،یعنی لوگوں میں ماں کے لیے جو احترام اور تقدس اور بزرگی کے جذبات پائے جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ نبی کریم کی ازواج مطہرات کے لیے تقدس واحترام کا جذبہ ہونا چاہیے.
اس آیت کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :
یقیناً امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا پرتو اور ظِل ہوتا ہے اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملی ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ۔ ’’میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس قریب ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم)
ایک اور مقام پر آں حضرت نے ارشاد فرمایا: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ ’’ میں ہر مومن سے دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس اولویت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ کا حق تمام ایمان والوں پر سب سے زیادہ ہے تو ان کی محبت بھی اہل ایمان کے دلوں میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے.. یہاں تک کہ اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی اولاد سے بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کرنا لازم ہے…
ارشاد ہے:
لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’ (بخاری، مسلم)
تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت اپنے والد اپنے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو.
اسی طرح یہ بھی روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ! آپ کی محبت میرے دل میں کائنات کے تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے، سوائے میرے نفس کے، تو آقا نے فرمایا کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ میری محبت ہونی چاہیے، تو انھوں نے کہا کہ اب اپنے نفس سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں.
. وفي الصحيح أيضا أن عمر ، رضي الله عنه ، قال : يا رسول الله ، والله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي . فقال : ” لا يا عمر ، حتى أكون أحب إليك من نفسك ” . فقال : يا رسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء حتى من نفسي . فقال : ” الآن يا عمر ” .
، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے نفس سے ، اس کے مال سے، اس کی اولاد سے اور دنیا کے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
جس ذات سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کی عزت وناموس اس کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اس کے ناموس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتا ہے.. رسول اللہ کی ذات چوں کہ اہل ایمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اس لیے محبت کے تقاضے کے عین مطابق
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین نے محبت رسول اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر سرفروشی اور جاں سپاری اور فدائیت کے ایسے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں جو قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہیں… مسلم امۃ کے بچے اپنے رسول کے لیے جان نثاری کے جذبات سے لبریز تھے اس حوالے سے سینکڑوں واقعات کتب سیر میں موجود ہیں.. یہاں صرف ایک واقعہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اُنہوں نے کہا: میں بدر والے دن صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں بائیں جانب نظر ڈالی تو دیکھا کہ میرے دونوں طرف دو نوجوان انصاری لڑکے کھڑے ہیں۔ میں نے تمنا کی: کاش !میرے نزدیک کوئی طاقتور اور مضبوط آدمی ہوتے۔ ا ن میں سے ایک مجھے میرے پہلو میں ہاتھ مار کرکہنے لگا:
«یا عم! هل تعرف أباجهل؟» ”چچا !کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟”میں نے کہا: ہاں ، بھتیجے!تمہیں اس کی کیا غرض ہے؟ اُس نے کہا :«أُخبرت أنه یسبّ رسول الله ﷺ والذي نفسي بیده لئن رأیته لا یفارق سوادي سواده حتی یموت الأعجل منا»
”مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ رسو ل اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا جسم اس کے جسم سے اتنی دیر تک جدا نہیں ہوگا جب تک ہم میں سے جس کو جلدی موت آنی ہے، آجائے۔”
عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس نوجوان لڑکے کے جذبات پر بڑا تعجب ہوا۔پھر مجھے دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح پہلو میں ہاتھ مارا او راُس جیسی بات کہی۔ اتنے میں میری نظر ابوجہل پر پڑی۔ وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ میں نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ابوجہل ہے. جس کے بارے میں تم دونوں سوال کررہے تھے۔ابن عوف کہتے ہیں: وہ دونوں جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور دونوں نے اس پر تلوار کا وار کیا یہاں تک کہ اسے جہنم رسید کردیا۔ پھر وہ رسول اللہﷺکےپاس آئے اور آکر آپ کو خبر دی۔ آپﷺ نے پوچھا «أیکما قتله؟»تم دونوں میں سے کس نے اس کو قتل کیا ؟ اُن دونوں میں ہر ایک کہنے لگا: ”أنا قتلته”میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپﷺنے فرمایا: «هل مسحتما سیفیکما؟» ”کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کردی ہیں؟ اُنہوں نے کہا: نہیں آپﷺنے ان دونوں تلواروں پر نظر دوڑائی اور فرمایا: «کلاکما قتله»تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور ابوجہل کا پہنا ہوا سامان وغیرہ معاذ بن عمرو بن الجموع کو عطا کردیا۔
اور وہ دونوں نوجوان لڑکے معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء تھے۔45
اورصحیح البخاري46 میں ہے کہ عبداللہ بن عوف کہتے ہیں: «فأشرت لهما إلیه فشدّا علیه مثل الصقرین حتی ضرباه وهما ابنا عفراء»
”میں نے ابوجہل کی طرف ان دونوں کو اشارہ کیا ۔وہ دونوں لڑکے دو عقابوں کی طرح اس پر شدت سے ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ اسے واصل جہنم کردیا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔”
موجودہ زمانے میں بھی
اس محبت کے کچھ عملی تقاضے ہیں اور کچھ نظری وفکری تقاضے ہیں..
عملی تقاضہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو اپنی تمام خواہشات وجذبات پر مقدم رکھا جائے، ان کی سنتوں پر پوری دیانت داری کے ساتھ عمل کیا جائے، ان کے لائے ہوئے دین پر مکمل یقین اور اٹوٹ وفاداری ہو، ان پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم سے بھر پور تعلق اور اس پر عمل ہو، ان کی سیرت وسنت کو اپنی ذات اپنے گھر اور اہل خانہ پر نافذ کیا جائے، ان کی اخلاقی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کیا جائے، ان کی انسانیت پر مبنی پیغامات سے اپنے برادران وطن خاص طور پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کو واقف کرایا جائے اور نبی کریم کے اسوہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے دکھ درد مصیبت وغم میں شامل ہوا جائے (انک لتصل الرحم وتقری الضیف… کو ہرحال میں پیش نظر رکھا جائے
فکری ونظری پہلو یہ ہے کہ ان کو اپنا سب سے بڑا محسن جان کر اور ان کے حقوق کا ادراک کر کے ان کی اعلیٰ درجے کی تعظیم کی جائے ان کے لیے جان ودل قربان کرنے کو تیار رہیں اور اگر ان کی عزت وناموس پر کوئی بدبخت ملعون حملہ آور ہو تو اس کا دندان شکن جواب دیا جائے،
(شرعی وفقہی طور پر گستاخ رسول کی وہی سزا ہے جو مرتد کی سزا ہے، عہد رسالت میں یہ سزا جن ملعونوں پر نافذ کی گئی، احادیث، سیرت النبی اور فقہی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل مذکور ہے ، اس موضوع پر شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول اور قاضی عیاض کی الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں مفصل کلام موجود ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں اقلیتی ودیگر جمہوری ممالک میں چونکہ ان سزاؤں کی تعمیل کروانے میں مشکلات ہیں اس لیے سردست عملی وفکری طور بھی ایسے افراد اور ایسی ذہنیت کا تعاقب کیا جائے،( اگر ایسے ملعون کی بات پہلے مشتہر ہوچکی ہو،،) اگر ان کے ہفوات پہلے سے مشتہر نہ ہو تو ایسے آڈیو، ویڈیو اور گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی تشہیر وترویج سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے.
قانونی و جمہوری طور پر ہمارے لیے جو کچھ بھی کرنا ممکن ہو اس میں دریغ نہ کیا جائے، اور جمہوری انداز میں متحد ہو کر ہر قسم کے فروعی اختلاف کو پس پشت ڈال کر، بنیان مرصوص یا سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بن کر مذھبی شخصیات بالخصوص حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت وگستاخی پر پھانسی کی سزا کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ ملکی طور پر بھی کی جائے اس کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے فضا بھی ہموار کی جائے اقوام عالم کو بھی اپنی قلمی، اخلاقی وفکری طاقت سے اس سمت میں قانون سازی کے لیے مجبور کیا جائے… ورنہ آج ملعون بھاچپا ترجمانوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ کی شان میں ہفوات بکے گئے ہیں، اور اس کی وجہ سے اپنے رسول سے محبت کرنے والے جیالوں میں زبردست اشتعال پیدا ہوا ہے اور کئی شہروں میں اس کی وجہ سے ناخوش گوار واقعات پیدا ہوئے ہیں، اس سے قبل حال ہی میں بنگلور اور کئی شہروں میں گستاخی کے رد عمل میں ایسے ہی حالات پیدا ہوچکے ہیں… ان حالات کے سد باب کے لیے قانون بنانے یا کم از کم موجودہ قانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کا متحدہ طور پر بیک آواز مطالبہ کرنا چاہیے.. نہیں تو ایسے واقعات آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے…
﴿إِنَّ الَّذينَ يُؤذونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنيا وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُم عَذابًا مُهينًا ٥٧) سورة الاحزاب
”بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے ".
مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے ایک موقع پر حضرت امام دار الہجرہ مالک بن انس رح سے دریافت کیا کہ : اگر دنیا میں کسی جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا واقعہ رونما ہوجائے تو ایسے حالات میں آقا ﷺ کی امت کی کیا ذمہ داری ہے؟؟؟؟؟؟
حضرت امام مالک نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا
کہ: امت مسلمہ اس سے بدلہ لے، پوچھا اگر حالات ایسے ہوں کہ
ایسا نہ کرسکے تو پھر؟؟؟؟؟ امام مالک رح نے وہ تاریخی جملہ کہا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔۔۔۔
آپ نے فرمایا۔ پھر حضور ﷺ کی ساری امت مرجائے۔۔ اس کو جینے کا بھی کوئی حق نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ ( بحوالہ انسانی عظمت کے تابندہ نقوش) اس واقعہ سے مسئلے کی حساسیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر حملے ہوتے رہیں، رسول اللہ کے حرم پاک کو نشانہ بنایا جاتا رہے حضرات امہات المومنین پر ہفوات بکے جاتے رہیں اور ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں تو واقعتاً یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے..
ایسے مواقع پر قانون کے دائرے میں جو کوشش ہمارے لیے ممکن ہو وہ کرگذریں تو ضرور اللہ تعالیٰ کی نصرت ومدد ہمارے شامل حال ہوگی.
﴿إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُركُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم ٧ ﴾….. سورة محمد
”اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا. اور تمہیں ثابت قدم کردے گا ۔”
مشکل حالات میں ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا اہل ایمان کی کامیابی کی ضمانت ہے.. یہ ضمانت خود اللہ رب العالمین نے دی ہے
: ’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓئك ھم المفْلِحُوْنَ‘‘
(اعراف:۱۵۷)
ترجمہ :تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
نفسی الفداء وفداک ابی وامی یارسول اللہ افضل صلوات اللہ علیک ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)