عتیق احمد شفیق اصلاحی
قیام لیل کی اہمیت :
قیام للیل ماہ رمضان کی ایک اہم عبادت ہے یہ اسلام میں ایک پسندیدہ عمل ، اللہ کے رسول ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے معمولات میں سے ہے۔ اسے اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت بتا یا گیا ہے ۔ قیام اللیل کے معنی ہیں رات میں کھڑے ہو نا یعنی کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھنا ۔ اس کو تہجد اور رمضان المبارک کی نسبت سے قیام رمضان اور تراویح بھی کہا جاتا ہے نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے حکم دیا تھا۔ من الیل فتھجد بہ نافلۃ لک (بنی اسرائیل :۷۹) اور رات کو تہجد پڑھو۔یہ تمہارے لیے زائد ہے۔یا یھا المزمل قم اللیل الا قلیلا نصفہ او انقص منہ قلیلا او زدعلیلہ و رتل القرآن تر تیلا ( مزمل ۱۔۴)اے اوڑ ھ لپیٹ کر سونے والے ! رات کو نمازمیں کھڑے رہا کرو مگرکم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن خوب خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
نبی ﷺ کا معمول :
آپ ﷺ رات کا زیادہ تر حصہ اللہ کی عبات و تہجد کی نماز میں گزارتے تھے۔ عن المغیر ۃ بن شبعۃ قال:قام النبی ﷺ حتی تورمت قدماہ فقیل لہ : لم تصنع ھذا وقدغفرلک ما تقدم من ذنبک وما تاخر ؟ قال : افلا اکون عبد ا شکورا (بخاری)حضرت مغیرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے (رات) اس قدر طویل قیام
فر مایا کہ آپؐ کے پاؤں میں ورم آگیا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا آ پﷺ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ ﷺ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخشے جا چکے ہیں آپ ﷺ نے فر مایا : کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں
حضرت ابوذرؓ کا بیا ن ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور اس مقام پر پہونچے : ان تعذبھم فا نھم عبادک و ان تغفر لھم فا نک انت العزیز الحکیم (المائدہ: ۱۱۸) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فر مادے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں کہ صبح ہو گئی ( بخاری)
بنی ﷺ کا معمول عام دنوں بھی یہی تھا کہ آپ آدھی رات ، تہائی رات، کبھی دو تہائی رات عبادت میں گزارتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فر ماتی ہیں کان رسول ﷺ یصلی فیما بین ان یفرغ من صلاۃ العشاء الی الفجر ء احد ی عشرۃ رکعۃ یسلم بین کل رکعتین و یو تر بوا حدۃ (مسلم)رسول ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک گیارہ رکعت نماز ادا فر ماتے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھرتے ، پھر آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے۔
ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فر مایارحم اللہ رجلا قام من اللیل فصلی، و ایقظ امراتہ ، فان ابت نضح فی وجھھا الماء،و رحم اللہ امراۃقامت من اللیل فصلت و ایقظت زوجھا ، فان ابی نضحت فی وجھہ الماء( ابو داود، نسائی، ابن ماجہ) اللہ اس شخص پر رحم فر مائے جو رات کو اٹھا اور نماز پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا چنانچہ اس نے بھی نماز پڑھی اور اگر وہ عورت نہ اٹھے تو اس کے منھ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ اللہ اس عورت پر رحم فر مائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی (نماز کے لئے)جگائے چنانچہ وہ بھی نماز پڑھے۔ اگر نہ اٹھے تو اس کے منھ پر پانی کے چھینٹے مارے۔
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فر مایا علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم ، وقر بۃ الی ربکم و مغفرۃ للسیئات ، و منھاۃ عن الاثم (ترمذی) تم ضرور قیام لیل کیا کرو ، کیونکہ وہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ رہا ہے اور وہ تمہارے لیے قربت رب [کا ذیعہ] ہے اور برائیوں [کے اثرات] کو مٹانے والی اور گنا ہ سے روکنے والی چیز ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عنبسہ ؓ سے روایت کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فر مایا اقرب مایکون الرب من العبد فی جوف اللیل الاخر فا ن استطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن (ترمذی)رب اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہو تا ہے ، پس اگر تم سے یہ بات ہو سکے کہ تم رات کے آخری میں اللہ کو یاد کرنے والوں میں شامل ہو تو ایسا کرو۔
حضرت عبداللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے ان سے فر مایا : اے عبداللہ ! تم اس شخص کی مانند نہ ہو جاؤ جو رات کو نماز پڑ ھاکر تاتھا ، پھر اس نے نماز چھوڑ دی ( بخاری و مسلم)
اللہ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بتائی ہے کہ وہ رات میں جاگ کر اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ والذین یبیتوں لربھم سجدا و قیاما ( فرقان:۶۴) جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں ۔ تتجا فی جنوبھم عن المضاجع ید عون ربھم خوفا و طعما (السجدہ:۱۶) ان کی پیٹھیں بستر وں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ کانو ا قلیلامن الیل مایھجعون و بالاسحار ھم یستغفرون (زاریات:۱۷،۱۸)وہ راتوں کو کم ہی سوتے تھے ،پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے ۔ المستغفرین بالاسحار (آلعمران:۱۷)رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے کی مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کو رات کی عبادت بہت محبوب تھی اسی آپ ﷺ خود اس پر عامل تھے اور اپنے گھر والوں اور مسلمانوں کو بھی اس کے لیے ابھارتے اور تا کید فرماتے آپ ﷺ کا ارشاد ہے : افضل الصلوۃ بعد الصوۃ المکتوبۃ الصلوۃ فی جوف اللیل (مسلم) فرض نماز کے بعد سب سے افضل درمیان شب کی نماز ہے ۔ ایھا الناس افشوا السلام ، اطعموا الطعام و صلوا والناس نیام ، تد خلون الجنۃ بسلام(ترمذی) اے لوگو!سلام کو عام کرو بھو کو ں کو کھانا کھلاؤ اور جب رات میں لو گ سو رہے ہو ں تو نماز ( تہجد) پڑھو امن سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔
ماہ رمضان اور قیام لیل:۔ ماہ رمضان نیکیوں کی فصل بہار ہے ۔اس ماہ کی ایک اہم نیکی قیام لیل ہے ۔قیام لیل کی اہمیت ہر وقت وہر رات کے لیے مسلمہ ہے ۔لیکن ماہ رمضان میں اس کی فضلیت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جب ایک مومن رات کی تنہائی میں مولی کے سامنے کھڑاہو کر توبہ و استغفارمیں منہمک ہو تا ہے ۔ انکساری و عاجزی سے اپنی پیشانی اس کے حضور جھکا دیتا ہے ۔تو رب کائنات بھی جو ش میں آجاتا ہے اور وہ اس بندے کو بخش دیتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فر مایا من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ( بخاری) جس شخض نے ماہ رمضان میں ایمان کی حالت میں اور صرف اللہ سے اجرکی طلب میں قیام لیل کیا تو اس کے گزشتہ گنا ہ بخش دیئے جا ئیں گے ۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: کا ن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یر غب فی قیام رمضان من غیر ان یا مر ھم فیہ بعزیمۃ ، فیقول ’’ من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذ نبہ ( مسلم) حضرت ابو ہریر ؓ فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں قیام لیل کرنے کی تر غیب دیا کرتے تھے ، لیکن اس کا تا کیدی حکم نہیں دیتے تھے چنانچہ آپ ﷺ فرماتے تھے جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور صرف اللہ سے اجر کی طلب میں قیام لیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔رات کے آخری پہرہ اللہ
تعالی بندوں کی طرف متوجہ ہو تا ہے ۔ یہ وقت دعا کی قبولیت اور مغفرت کا ہو تا ہے ( مسلم)اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ہے ۔ ینزل ربنا کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاخرفیقول من ید عونی فا ستجیب لہ من یسا لنی فا عطیہ من یستغفر لی فا غفر لہ ( بخاری، مسلم) ہمار ا رب ہر رات کو جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہتا ہے تو آسمان دینا پر اتر آتا ہے اور فر ماتا ہے : کو ن ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ،کون ہے جو مجھ سے ما نگے کہ میں اسے عطا کروں ۔ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اس کوبخش دوں ۔
رمضان کے مہینے میں یہ خصوصیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور بندوں کی مغفرت ،بخشش و نجات کا سامان کیا جا تا ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو ایک صدا لگانے والا پکا رتا ہے ۔یا باغی الخیر اقبل ویا باغی الشر اقصروللہ عتقاء من النار و ذالک کل لیلۃ ( ترمذی،ابن ماجہ) اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا ۔ بہت سے لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی عنایت سے آگ سے بچا دیے جاتے ہیں۔اور یہ ہر رات کو ہو تا ہے۔ ان للہ عند کل فطر عتقاء و ذلک فی کل لیلۃ ( ابن ماجہ) ہر افطار کے وقت اللہ تعالی بہت سے لو گوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ایسا ہر شب ہو تا ہے۔
نبی ﷺ اور باجماعت تراویح:
نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارک کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ﷺ نے تین دن جماعت تراویح کا اہتمام فرمایا تھا ، پھر جب لو گوں کا ذوق و شوق دیکھا کہ مسجد میں گنجائش باقی نہیں رہی ہے تو آپ ﷺ نے اس اندیشہ سے کہ کہیں نماز تراویح فرض نہ ہو جائے اسے با جماعت نہیں پڑھایا لیکن آپ ﷺ چاہتے تھے کہ امت اس پر عمل کر تی رہے۔ اس کے لیے آپ ﷺ نے امت کو تر غیب بھی فر مائی ( حدیث کے الفا ظ اوپر گزر چکے ہیں )
اسی لیے تراویح یا رمضان کاقیام لیل سب کے نزدیک مرد و خواتین دونوں کے لیے سنت مو کدہ ہے۔عن عائشہ رضی اللہ عنھا ان رسول اللہ ﷺ خرج لیلۃ من جو ف اللیل ، فصلی فی المسجد ، و صلی رجال بصلاتہ، فا صبح الناس فتحدثوا ، فا جتمع اکثر منھم ،فصلی فصلوامعہ، فا صبح الناس فتحدثوا، فکثراھل المسجد من اللیلۃ الثا لثۃ، فخرج رسول اللہ ﷺ فصلی فصلوابصلاتہ ، فلماکانت اللیلۃالرابعۃ عجز المسجد عن اھلہ، حتی خرج لصلاۃ الصبح، فلما قضی الفجر اقبل علی الناس،فتشھد ، ثم قال: ’’ اما بعد، فا نہ لم یخف علی مکانکم، ولکنی خشیت ان تفترض علیکم ،فتعجزوا عنھا‘‘ فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علی ذلک وفی روایۃ مسلم : فانہ لم یخف علی شانکم اللیلۃ ، ولکنی خشیت ان تفرض علیکم صلاۃ اللیل فتعجزوا عنھا ( بخاری مسلم )
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ(رمضان کی)ایک درمیانی رات میں نکلے،آپؐ نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپؐ کے پیچھے نماز پڑھی ۔صبح کولوگوں نے اس کا چرچا کیا۔دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور آپؐ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔پھر صبح ہوئی تو اس کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا۔تیسری رات میں اس سے زیادہ آدمی جمع ہوئے،آپؐ باہر تشریف لائے اور آپؐ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں لوگوں کا سمانا دشوار ہو گیا(لیکن آپؐ باہر نہیں نکلے)پھر آپؐ صبح کی نماز کے لئے نکلے اور جب نماز ادا کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ’’اما بعد،مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی،لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آ جائو۔ـ‘‘پھر رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور حالت یہی رہی۔
امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:’’رات میں تمہاری حالت و کیفیت مجھ پر پوشیدہ نہیں تھی،لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ تم پر رات کی نماز (یعنی تہجد)فرض کر دی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جائو۔
عن ابی ذر ؓ قال: صمنا مع رسول اللہ ﷺ رمضان ،فلم یقم بنا شیئاً من الشھر حتی بقی سبع ،فقام بنا حتی ذھب ثلث اللیل ،فلما کانت السادسۃ لم یقم بنا،فلما کانت الخامسۃ قام بنا حتی ذھب شطر اللیل ،فقلت یا رسول اللہ ﷺ ، لو نفلتنا قیام ھذہ اللیلۃ، قال: فقال: ان الرجل اذا صلی مع الامام حتی ینصرف حسب لہ قیام لیلۃ ، قال: فلما کانت الرابعۃ لم یقم ، فلما کانت الثالثۃ جمع اھلہ ونساء ہ والنا س ، فقام بنا حتی خشینا ان یفوتنا الفلاح، قال: قلت: وما الفلاح؟ قال:السحور ،ثم لم یقم بقیتہ الشھر(ابو دائود،ترمزی،ابن ماجہ)
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے ماہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے،آپؐ نے ہمیں کسی رات میں بھی نماز نہیں پڑھائی ،یہاں تک کہ (رمضان ختم ہونے میں )سات راتیں باقی رہ گئیں،پھر آپؐ نے ہمیں تہایہ رات تک نماز پڑھائی،پھر جب چھ راتیں باقی رہ گئی تو آپؐ نے نماز نہیں پڑھائی،پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ ؐ نے ہمیں آدھی رات نماز پڑھائی۔میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !کاش آج آپؐ مزید پڑھاتے!آپؐ نے فرمایا : آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھے،یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے،تو اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔اور جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے نماز نہیں پڑھائی اور جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے اپنے تمام اہل خانہ اور لوگوں کو جمع کیا اور نماز پڑھائی ،یہاں تک کہ ہم کو خوف ہوا کہ ’’فلاح‘‘نکل جائے گی۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ’’فلاح ‘‘کیا چیز ہے؟حضرت ابو ذر ؓ نے کہا کہ ’’فلاح ‘‘سے مراد سحری ہے۔پھر آپؐ نے مہینے کے بقیہ ایام میں نماز نہیں پڑھائی۔
عن نعیم بن زیاد ، قال: سمعت النعمان بن بشیرؓ، علی منبر حمص یقول:قمنا مع رسول اللہﷺ فی شھر رمضان لیلۃ ثلاث وعشرین الی ثلث اللیل الاول،ثم قمنا معہ لیلۃ خمس وعشرین الی نصف اللیل ، ثم قمنا معہ لیلۃ سبع وعشرین حتی ظننا ان لا ندرک الفلاح ، وکانو یسمونہ السحور(سنن نسائی)
حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رمضان کی تیئسویں رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہائی رات تک نماز ادا کرتے رہے۔پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک،اور ستائیسویں رات کو اتنی دیر تک نما ز ادا کرتے رہے کہ ہمیں سحری کے وقت کے نکل جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔
تراویح کی رکعات کی تعدا د:
تراویح کی نماز کی حیثیت نقل کی ہے،ایک ایسے نفل کی جس پر نبی اکرمﷺ نے مداومت برتی۔تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلے میں آپ نے کوئی حکم نہیں فرمایا البتہ آپؐ نے یہ فرما کر کہ ’’جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی)ایمان کے ساتھ اور صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید میں تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کئے ہوں گے۔‘‘تشویق دلائی
آپ کے عمل کے بارے میں دو طرح کی روایات ملتی ہیں: ایک روایت کے مطابق بیس اور زیادہ تر روایات کے مطابق ۸؍رکعتیں (وتر کے علاوہ)کی ملتی ہیں۔
عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن،انہ سال عائشۃ ؓ،کیف کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان ؟قالت: ما کان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ،یصلی اربعا، فلا تساء ل عن حسنھن وطولھن ، ثم یصلی اربعا، فلا تساء ل عن حسنھن وطولھن، ثم یصلی ثلاثا،فقالت عائشۃ ؓ: فقلت: یا رسول اللہ ﷺ ، اتنام قبل ان توتر؟ فقال: یا عائشۃ، ان عینیّ تنامان، ولا ینام قلبی(بخاری،مسلم)
ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کیسی ہوتی تھی؟انہوں نے جواب دیا: آپ ؐ رمضان اور اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ ؐ چار رکعتیں پڑھتے تھے،تو مت پوچھو کہ وہ کتنی لمبی اور کتنی اچھی ہوتی تھیں! پھر چار رکعتیں پڑھتے،تو مت پوچھو کہ وہ کتنی لمبی اور کتنی اچھی ہوتی تھیں!پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !کیا آپؐ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟آپ ؐ نے فرمایا :’’اے عائشہ!میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں،لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضا ن میں جماعت سے الگ بیس رکعت نماز پڑھا کرتے تھے(بیہقی)
اس روایت کی سند کمزور ہے۔
عہد فاروقی میں تراویح کی رکعتیں:
حضرت عمر ؓ کے ابتدائی زمانے تک قیام لیل کے لئے باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔مسجدوں میں صحابہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں یا اپنے گھروں پر تراویح پڑھا کرتے تھے۔حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانے میں ایک جماعت کا طریقہ جاری فرمایا۔
عن عبد الرحمن بن عبد قاری انہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ؓ لیلۃ فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون،یصلی الرجل لنفسہ،ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر: انی اری لو جمعت ھؤلاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم ، فجمعھم علی ابی بن کعب ؓ ثم خرجت معہ لیلۃ اخری، والناس یصلون بصلاۃ قارئھم، قال عمرؓ: نعم البدعۃ ھذہ، والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون، یرید آخر اللیل ،وکان الناس یقومون اولہ(بخاری)
عبد الرحمٰن بن عبد فرماتے ہیں کہ میںحضرت عمر ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا،وہاں لوگوں کو دیکھا کہ ادھر ادھر منتشر ہیں،کہیں ایک شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہے،تو کہیں ایک آدمی کے پیچھے کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا:’’میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہوگا‘‘،پھر اس کا عزم کرکے ان کو حضرت ابی بن کعبؓ پر جمع کر دیا۔پھر میں ان کے ساتھ ایک دوسری رات میں نکلا،لوگ اپنے قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے،حضرت عمرؓ نے فرمایا:یہ نیا طریقہ کتنا اچھا ہے!جس نماز کو چھوڑ کر تم سب سوتے ہو وہ اس سے افضل ہے جسے ادا کرتے ہو‘‘۔آپؓ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا،جبکہ لوگ ابتدائی حصہ میں کھڑے ہوتے تھے۔(بخاری)
اس عمل کو حضرت عمرؓ نے ’بدعت‘اس معنی میں کہا کہ نبیؐ نے تہجد و تراویح رات کے آخری حصہ میں پڑھنے کا اہتمام کیا اور حضرت عمر ؓ نے عشاء کے فوراً بعد اس طریقہ کو جاری کیا لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس نئے عمل کو اچھا بھی قرار دیا۔چونکہ نبیؐ نے تروایح با جماعت پڑھائی اس لئے اس کو بدعت شرعی معنوں میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔حضرت عمرؓ نے لوگوں کی آسانی کے لئے کہ اول وقت میں زیادہ تر مسلمان قیام رمضان کے اجر کے مستحق ہو جائیںگے جب کہ آخری پہر میں امت کی ایک بڑی تعداد کا شریک ہونا مشکل تھا۔اسی لئے حضرت عمر ؓ نے اپنے اس قول میں اس کی وضاحت بھی فرما دی۔
دوسرے کہ نبی ﷺ نے اس سلسلہ کو یہ کہہ کر بند کیا تھا کہ اندیشہ ہے کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔نبیﷺ کے بعد یہ اندیشہ ختم ہو گیا تھا۔
تیسرے یہ کہ جلیل القدرصحابہ اکرامؓ کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن حضرت عمر ؓ کے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملتی ہے کہ شروع میں حضرت عمر ؓ نے گیارہ رکعت پڑھنا نے کا حکم دیاتھا لیکن جب لمبے قیام سے لوگوں کو مشقت ہونے لگی تو آپ نے قرأت کو مختصر کرکے رکعتوں کی تعداد میں اضافہ کا حکم فرمایا تراویح کی نماز نفل ہے لہذا علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔
عن السائب بن یزید انہ قال: امر عمر بن الخطاب ؓ ابی بن کعب و تمیما الداری ؓ ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ، قال: وقد کان القاریُ یقرا بالمئین، حتی کنا نعتمد علی العصی من طول القیام، وما کنا ننصرف الا فی فروع الفجر(موطا امام مالک )
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت تمیم داریؓ کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔سائب کہتے ہیں کہ امام سو سو آیتیں پڑھتا تھا،یہاں تک کہ ہم لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھی کا سہارا لیتے تھے اور ہم فجر کے قریب ہی فارغ ہوتے تھے۔
عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب ؓ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ قال: وکانوا یقرء ون بالمئین،وکانوا یتوکئون علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان ؓ من شدۃ القیام(السنن بیہقی)
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ’’لوگ حضرت عمر ؓ کے دور میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘نیز فرماتے ہیں:’’لوگ سو سو آیتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شدت قیام کی وجہ سے لوگ اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
عن السائب بن یزید قال: کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر(معرفتہ السنن والآثار للبیہقی)
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ’’ہم حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے۔‘‘
حضرت عمر ؓ ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی بیس رکعتیں پڑھی جاتی رہیں۔
اس کے بعد زیادہ تر بیس رکعتوں کا رواج رہا۔بعض صحابہ اور تابعین سے ۱۶،۲۴،۳۴،۳۶،۳۸ اور ۴۰؍رکعتوں کے پڑھنے کی بھی روایات ملتی ہیں(عمدۃ القاری، نیل الاوطار)
امام ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ،امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک ۲۰؍رکعت اور امام احمد بن حنبلؒ ۳۶؍رکعت کے قائل ہیں۔’’امام احمد بن حنبل کے نزدیک تراویح کے معاملہ میں ۲۰؍رکعت ہی کا مسلک مرحج ہے اور اسی کے قائل سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ہیں مگر امام مالک ۳۶؍کے قائل ہیں (المغنی ج ا ص۷۹۸،۷۹۹)
علامہ ابن تیمہؒ فرماتے ہیں’’آپ ؐ نے قیام رمضان کی کوئی متعین حد مقرر نہیں کی بلکہ آپؐ رمضان اور غیر رمضان میں ۱۳؍رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،البتہ آپؐ کی رکعتیں طویل ہوا کرتی تھیں۔پھر جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کے پیچھے لوگوں کو جمع کیا تو وہ (۲۰)بیس رکعتیں تراویح اور تین وتر کی رکعتیں پڑھاتے تھے اور وہ رکعتوں کے اضافے کے حساب سے قرأت کم کرتے تھے، کیونکہ طویل رکعتوں کے مقابلے اس میں مقتدیوں کو آسانی تھی پھر سلف میں ایک گروہ (۴۰)رکعت تراویح تین وتر اور کچھ دوسرے چھتیس (۳۶)رکعت تراویح تین(۳)وتر پڑھتے تھے۔یہ سب جائز ہے ان میں سے جس طریقہ کے مطابق بھی قیام رمضان کرے بہتر ہے(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ۲۲؍۲۷۲)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی حد متعین ہے اس لئے کہ یہ نفل ہے چنانچہ اگر قیام کو لمبا کریں اور سجدوں کو کم کریں تو بھی ٹھیک ہے اور یہی مجھے پسند ہے اور اگر رکوع و سجود کو بڑھائیں تو بھی درست ہے(معرفتہ السنن والآثار للبہقی)
ابن حجر ؒ فرماتے ہیں تراویح کی رکعتوں کی تعداد میں تنوع لوگوں کے احوال و ضروریات کے مطابق ہے۔پس کبھی گیارہ،اور کبھی اکیس کبھی تیئس (۲۳)رکعت پڑھی گئی۔جب تک نماز میں لوگ خشوع،نشاط،قوت محسوس کریں اسی کے مطابق نماز پڑھی جائے۔گیارہ(۱۱)رکعت میں قیام طویل ہوتا ہے۔طویل قیام سے لوگوں میں اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔جب کہ بیس (۲۰)رکعت میں قیام طویل نہیں ہوتا اس میں لوگوں کو آسانی محسوس ہوئی اور یہ شاق نہیں گزرتا ہے اس لئے اس کو اختیار کیا گیا۔
تراویح کی نماز نفل ہے اس کے ذریعہ نفوس کی اصلاح،قلوب کا تزکیہ اور دلوں کی تطہیر ہوتی ہے۔دل کا حسد،کینہ،تنگی،شرک،کفر،بدعات لایعنی باتوں جیسے امراض کا علاج ہوتا ہے۔اس کے ذریعہ خوف الٰہی محبت خالق،قرب الٰہی ،رب کریم سے قربت حاصل ہوتی ہے۔عبادات کا مقصد و مطلوب یہی ہے اسی لئے نفل عبادات کو چھپا کر کرنے کی ترغیب دی گئی لیکن ماہ رمضان میں اجتماعی طور پر اس کا اہتمام اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ امت کی ایک بڑی تعداد رمضان کی اس نفل عبادات سے فائدہ اٹھا سکے۔
رمضان کے آتے ہی مسلمانوں کے درمیان تراویح کی رکعات پر بحث و مباحثہ چھیڑ جاتا ہے اب اس بحث کو ترک کر دینا چاہئے۔چودہ سو برس سے زائد عرصہ گزر چکا کسی ایک تعداد پر امت کا اتفاق نہیں ہو سکا کیونکہ شرعی لحاظ سے دونوں کی گنجائش ہے لہذا جس کو جو بہتر لگے اس پر عمل کرے اور دوسرے کو برا بھلا نہ کہے اسی میں ملت کی بہتری ہے۔
قیام لیل میں کرنے کے کام :
جب بندے کو قیام لیل کا موقع نصیب ہو جائے تو چند باتوں و اعمال پر خصوصی توجہ دینی چاہئے:
۱۔توبہ: تو بہ ایک ایسا عمل ہے جو بندے کو رب سے بہت قریب کر دیتا ہے۔بندہ اپنی لغزشوں غلطیوں،کوتاہیوں پر نادم ہو رب سے اس کی معافی چاہئے۔قرآن و حدیث میں اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔فلاح کا ذریعہ بتایا گیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: توبوا الی اللہ جمیعاً ایہ المومنون لعلکم تفلحون(نور:۳۱)اے مومنو!تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پائو
۲۔ایمان کی تجدید ؍عہد وفاداری کی تازگی: قیام لیل کے دوران بندہ اپنے عہد وفاداری و بندگی کو تازہ کرے۔ایمان کی تجدید کرے۔ایمان کمزور ہو جاتا ہے لہذا اس کی تازگی بہت ضروری ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان الایمان لیخلق فی جوف احدکم کما یخلق الثوب الخلق فاسئلوا اللہ ان یجددالایمان فی قلوبکم(طبرانی)بے شک ایمان تمہارے اندر بوسیدہ ہو جاتا ہے جیسے کپڑا بوسیدہ ہوتا ہے لہذا تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید فرما دے۔
۳۔کلام الٰہی سے گہرا تعلق پیدا کرنا:قیام لیل کے درمیان کلام الٰہی سے گہرا تعلق پیدا کرنے کی شعوری کوشش کرنی چاہئے۔خواہ نماز میں طویل قیام کے ذریعہ کلام الٰہی کی قرأت ہو یا نماز سے باہر تلاوت ہو،اس کو سمجھنے اور اس پر تدبر و تفکر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ماہ رمضان تو قرآن ہی کا مہینہ ہے۔قرآن کے الفاظ اقوم قیلا(مزمل)قرآن پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔قرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشھودا(بنی اسرائیل۷۸)فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں قیام لیل کا ذکر کیا ہے وہیں اس وقت کو قرآن کو پڑھنے کا بہتر وقت بتایا ہے کیونکہ اس وقت پوری یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔
۴۔دعا کرنا: قیام لیل کے دوران دعائوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے دعا بندے کو رب سے قریب کرتی ہے اور یہ وقت ایسا ہوتا ہے جس میں رب خود بندوں کی رضا جاننا چاہتا ہے جب کہ حدیث میں ہے کہ یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ادعونی استجب لکم(مومن:۶۰)مجھے پکارو میں تمہاری مراد پوری کروں کا۔
۵۔ذکر: قیام لیل کے دوران بندے کو اذکار مسنونہ اور درود شریف کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہئے۔یااھا الذین اٰمنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیراً و ّ سبحوہ بکرۃ واصیلا(احزاب۴۲)اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔
فی بیوت اذن اللہ ان ترقع ویذکر فیھا السمہ یسبح لہ فیھا بالغدو و الاصال(نور:۳۶)
ان گھروں میں پوئے جاتے ہیں جنھیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
سحر میں اٹھنے کا آسان نسخہ:
سحرکے وقت اٹھنے کے لئے درج ذیل باتوں کو اپنا یا جائے تو اٹھنا آسان ہو جائے گا۔
٭سوتے وقت سحر میں اٹھنے کی نیت و ارادہ کرکے سویا جائے۔
٭رات کو کھانا کم اور ہلکا کھا یا جائے۔مرغن غذا سے سستی آتی ہے زیادہ کھانے سے نیند زیادہ آتی ہے۔
٭دوپہر میں کچھ دیر کے لئے سولیا جائے۔
٭دن میں زیادہ جسمانی محنت کا کام نہ کیا جائے کیونکہ اس سے تھکان لاحق ہو جاتی ہے۔
٭رات کو عشاء کی نماز کے بعد فورا ً سونے کا اہتمام کیا جائے۔
٭رمضان میں تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
٭امام صاحب تراویح میں جن آیات کی تلاوت و قرأت فرمائیں ان آیات کا ترجمہ پہلے سے پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
٭تراویح کی رکعتوں سے زیادہ خشوع و خضوع کی کیفیت کو پیدا کرنے پر توجہ دی جائے۔
٭ رات کے آخری پہر اٹھنے کا اہتمام کیا جائے اور دن میں آرام کر لیا جائے۔
٭اہل خانہ کو بھی رغبت دلانے کی طرف توجہ دی جائے۔