یہ بات رامپور کے لیے باعث فخر ہے کہ سر سید علیہ رحمہ کی دو سو سالہ تقریبات کی جس کمیٹی کی تشکیل اسوقت کے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے کی تھی ڈاکٹر عابد رضا بیدار صاحب کو بھی انہوں نے اس کمیٹی کا ایک ممبر نامزد کیا تھا۔
رامپور کے ایک بزرگ مایہ ناز قلمکار جناب عتیق جیلانی صاحب بیدار صاحب کی شخصیت اور افکار پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب رامپور شناسی میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ” …….جو شخص نام کا بیدار نہیں،نرم دم گفتگو گرم دم جستجو پر کار بند رہنے والوں میں سے ہمہ وقت بیدار اور متحرک شخصیت اور کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھنے والے مستقل مزاج،بے غرض،خلوص و محبت کے پیکر خاص طور سے رامپور والوں سے ٹوٹ کر پیار کرنیوالے۔۔۔۔۔۔۔یہی انکی فطرت کا جوہر ہےجو انہوں دوسروں سے ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔انہیں کتابوں سے عشق ہے اسی لیے میرے دل میں عقیدت ہے۔ابتک کتنے مضامین اور چھوٹی بڑی کتابیں لکھ چکے ہیں،شاید انہیں خود بھی یاد نہ ہو بس”می نویس و می نویس”پر عمل کرتے ہوئے انہیں نے مضامین نو کے انبار لگا دیے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر تحقیقی کتابوں میں انکا نام کسی نہ کسی وجہ سے آ جاتا ہے۔انہیں رامپور سے پیار ہے وہ آج بھی سر گوشی میں پکار اٹھتے ہیں:
رامپور میرا درد ہے میرا خواب ہے،
میں اپنا نام رامپور رکھ لوں”
بیدار صاحب سے میری ملاقات بہت پرانی ہے۔وہ میرے والد صاحب کے شاگرد تھے۔اکثر گھر بھی آتے تھے۔ اس سلسلے سے وہ میرے استاد بھائی تھے۔میری تحریروں کو بہت شوق سے پڑھتے تھے اور مناسب مشوروں سے نوازتے تھے۔مرحوم علم کا سمندر تھے۔انہیں حوالوں کے تعلّق سے بےشمار کتابوں کے درجنوں پیرا گراف زبانی یاد تھے۔میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔جس دوران وہ جامعہ ہمدرد میں وزیٹنگ پروفیسر تھے ان سے میری رفاقتوں کا سلسلہ کچھ زیادہ ہی رہا۔ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب مجھے والد صاحب کی بیماری کے سلسلے میں ہر ہفتے رامپور آنا پڑتا تھا بیدار صاحب سے ٹرین میں آتے جاتے دو بار ملاقات ہوتی تھی۔دوران سفر ان سے بہت کچھ سیکھا۔انکی اعلیٰ ظرفی کا یہ عالم تھا کہ گھر واپسی پر ایک ہی رکشا سے چلتے تھے پہلے مجھے گھیر نجّو خاں چھوڑتے پھر اسی رکشا سے اپنے گھر کٹرہ جلال الدین واپس ہوتے۔بہت شاندار شخصیت کے مالک تھے مرحوم۔میری”کتاب آشفتہ سری”میں ایک مضمون بیدار صاحب پر بھی ہے۔باوجود اپنی علالت کے جبکہ وہ اپنی صاحبزادی کے پاس علاج کے سلسلے میں علی گڑھ قیام پزیر تھے،اپنے مضمون کو قلمبند کرنے سے قبل بیدار صاحب سے میری طویل گفتگو ہوئی تھی۔بہت خوش ہوئے یہ سنکر کہ میں نے انکی شخصیت اور خدمات پر کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے مجھے خدا بخش لائبریری کے لیے دی گئی اپنی خدمات کے بارے میں تفصیل سے نوٹ کرایا تھ۔ ۔امید ہے نئی نسل بیدار صاحب کے کارہائے نمایاں سے واقفیت کرکے ضرور مستفید ہوگی۔
میں جب بھی انکی تحریریں پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اگر رامپور میں عابد رضا خاں بیدار صاحب نہ ہوتے تو ماضی کی باز گشتیں ہم تک کیسے پہنچتیں،ہم ان سے کیسے واقف ہوتے۔ دعائے مغفرت کی درخواست کے ساتھ الوداع بیدار صاحب۔
جو بجھ گیا تو ہوا اور بھی درخشاں
چراغ ایسے لہو کے جلا گیا ایک شخص