فتح محمد ندوی
یہ سوال افغانستان کے حوالے سے بار بار ذہن میں آتا ہے اور میری طرح بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا ہوگا کہ دنیا افغانستان کے کمزور بے یارومددگار اور نہتے لوگوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ کیوں توڑ تی رہی ہیں۔ کیوں ان کے آزادی سے زندگی گزارنے کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہیں۔آخران کے پاس ایسا کیا خزانہ اور کیا دولت ہے۔ کیا ان کی زمینیں سونا اگل تی ہیں۔ یا وہاں تیل کے خزانے موجود ہیں جن پر معاصر قومیں قبضہ اور کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔شاید اس خوشک اور بنجر زمین پر ایسے ذخائر بھی موجود نہ ہو جن کی وجہ سے وہاں صدیوں سے آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔مزید یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے۔ کہ وہ طاقتیں یاوہ حکمران جوملک گیری کی ہوس رکھتے ہیں یا معصوم انسانوں کے خون سے وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں ۔انہیں انسانوں کے وجود سے اور ہر انسانی خیر سے نفرت اور چڑ ھ ہے۔ بہر کیف ان ظالموں کا یہ نسل کشی کا مذموم کردار اپنی جگہ قابل مذمت اور قابل حسرت و افسوس ہے۔ تاہم وہ لوگ جن کی پیشانی پر اپنے مذہب کی نام نہاد لکیریں اور نشانات ہیں وہ جب انسانوں کی نسل کشی میں برابر کا کردار بلکہ اپنے ظالم حکمرانوں کی انسانیت سوزی سے چار قدم آگے ہوں پھر افسوس مزید بڑھ جاتا ہے۔ افغانستان جنگ میں برطانیہ کا شاہی گھرانہ بلکہ خود ملکہ الزبتھ کے فرزند امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کی صفوں میں مسلح افغانستان کے میدان جنگ میں بھر پور طریقہ سے معصوم انسانوں کو تہ تیغ کر رہیں ہیں۔
اس سے یہ صاف ہوگیا کہ افغانستان کے میدان جنگ میں عیسائیوں کی مذہبی جماعتیں اور مادیت پرست ظالم حکمراں دونوں مل کر اپنے مذموم مقصد کی تکمیل میں سر گرم ہیں۔ اس جنگ میں مذہبی فکر و خیال کی اعلانیہ بلکہ عملی شرکت کئی اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ایک پہلو جو سب سے زیادہ اہم اور معنیٰ خیز ہے وہ یہ ہےکہ عیسیائیت کے مذہبی ادارے اپنی صلیبی جنگوں میں ذلت ناک شکست کا انتقام مسلمانوں سے لینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ مشترکہ طور پر دین کے حوالے سے مسلمانوں کی ایسی مضبوط اور مستحکم سوچ جو اسلام کے پورے نظام حیات کی نمائندگی کرے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینا ان استعما ری طاقتوں کے پلان میں شامل ہے کیونکہ اس کے بغیر ان کے نو آبادیاتی نظام کی توسیع کا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ۔اب رہی یہ بات کہ انہوں نے سر زمین افغانستان کو مشق ستم کیوں اور کس لیے بنا رکھا ہے۔اس پر ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم نے افغانستان کے حوالے سے خاص طور سے اس کی جغرافیائی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
ٖٖٖٖ اس کو مشرق وسطیٰ کی مرکزیت حاصل ہے۔ یوروپ نے اپنی اس نئی ترقی میں اپنا سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا ہے۔ اور ہر قسم کی تجارتی آمد و رفت اور سیر و سیاحت کے راستے دریا ئی رکھے۔ اور اپنے انہیں جہازوں کے ذریعے سے مشرق کو مغرب سے ملادیا۔لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ اہمیت جلدی فنا ہو جائے گی۔اب آئندہ مشرق وسطیٰ (سینٹرل ایشیا) مشرق و مغرب کو ملائے گا۔ اور تری کے بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا۔ تجارتی قافلے اب موٹروں۔ لاریوں۔ ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق اور مغرب میں آئے جائیں گے۔ اور چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہو کر گزرے گا اس لیے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا۔(سیر افغانستان ص 40)
یہ بات بھی یاد رہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان سے نکل تو گیا کیونکہ اس کی معیشت بقول امریکی دانشور نوم چوسکی کہ امریکہ اس وقت معیشت کے حوالے سے انتہائی نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔در اصل معیشت کےاس بحران سے نکل نے لیے ہی اس نے افغانستان سے بھاگنے کا پلان طے کیا ہے۔ لیکن اس پورے منظر میں ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ کہ جنگی چالیں ہمیشہ بدلتی رہی ہیں۔ اس لیےہمیں اطمینان کے بجائے ان کے تمام ارادوں اور پلاننگ پر نظر رکھنی ہے کیوں کہ دشمن کو کمزور سمجھ کر اس کی طرف سے غافل ہو کر بیٹھ جانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔