تحریر: مسعود جاوید
ایسی خبریں آپ کی نظروں سے گزری ہوں گی کہ بعض اوقات غیر مسلم وکلاء مسلم مدعی یا مدعا علیہ کا کیس لینے سے انکار کر دیتے ہیں گرچہ ایسا وہ کسی تعصب کی بناء پر نہیں بلکہ شرپسندوں کی دھمکی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو ایسا ہوتا تو ہے۔ جموں میں 8 سالہ معصوم بچی آصفہ کے ساتھ حیوانیت کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے (ریپ) زنا بالجبر اور اس کے بعد بے رحمی سے قتل پوری انسانیت کو شرمسار کرنے والا واقعہ تھا لیکن افسوس فرقہ پرست عناصر نے مجرموں کی حمایت میں جلوس نکالا اور وکلاء نے اس معصوم کا کیس لینے سے انکار کر دیا۔ بظاہر اس کی وجہ فرقہ پرست عناصر کا دباؤ تھا ۔ ایسے میں ایک خاتون وکیل مسز دیپیکا رجاوت نے آصفہ کی طرف سے عدالت میں اس کیس کی پیروی کی۔
پچھلے کچھ سالوں میں وکلاء کے انکار کی ایسی اور بھی نظیر کا ملنا ملت سے متقاضی ہے کہ ہمارے نوجوان وکالت کے پیشے میں مہارت حاصل کر کے پریکٹس کریں ۔
میرے ایک دوست سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اپادھیائے صاحب بعض اوقات مسلم ایشوز پر مجھ سے بات کر کے معلومات حاصل کرتے تھے اور انہیں یہ شکایت رہتی تھی کہ اس غرض کے لئے انہوں نے دو مسلم اسسٹنٹ رکھا لیکن شریعت کا علم ان دونوں کو بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی غیر مسلم کو۔
پچھلے دنوں کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ ان کے ارد گرد شریعت سے واقف وکلاء نہیں ہوں گے جن سے وہ قرآن کی آیات کا صحیح ترجمہ اور مفہوم سمجھتے ۔ انگریزوں کے دور میں بھی عدالتوں میں اسلامی شریعت کا لحاظ رکھنے کا نظم ہوتا تھا ۔ اس مقصد کے لئے انگریزی حکومت نے اٹھارویں صدی کے آخر میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب الہدایہ کا ترجمہ کرایا تھا اور اس کے امتزاج سے اینگلو محمڈن لاء مرتب کیا تھا جسے ایک بے مثال ضابطہ بندی اور دستور العمل اور ریفرنس بک کا درجہ حاصل تھا ۔
دینی مدارس میں فقہ کی کتابیں دوام و اصرار کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں اور ان کتابوں میں ’ الہدایہ‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کی امتیازی حیثیت کے مدنظر بے شمار شروحات مختلف ادوار میں اور متعدد زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔
بارہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی یہ کتاب فقہ حنفی کی سب سے سے زیادہ مؤثر کتاب ہے اور پوری دنیا میں اس کتاب کو فقہ حنفی کا سب سے زیادہ معتمد، مقبول اور معتبر کتاب کا درجہ حاصل ہے اور اسے بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔
جس طرح کے مسائل کا احاطہ اس کتاب میں کیا گیا ہے اور دوران درس و تدریس جس طرح بال کی کھال نکال کر اور مفروضوں پر مبنی مسائل کی وضاحت کر کے طلباء کا دماغ کھولا جاتا ہے اس کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ جانفشانی سے اس فن فقہ بالخصوص اس کتاب میں امتیاز حاصل کرنے والے بہترین وکیل اور قانون دان بن سکتے ہیں اگر وہ فراغت کے بعد لاء کالج میں داخلہ لے کر گریجویشن LLB اور پوسٹ گریجویشن LLM کریں ۔
اسی طرح اس کتاب میں مہارت حاصل کر کے عصری کالجوں سے کامرس میں گریجویشن کرنے والے فارغین مدارس کے لئے مختلف ممالک کے بلا سودی بینکوں اور شریعت سے مطابقت رکھنے والے مالی اداروں Sharia compliant financial institutions میں ملازمت کے مواقع ہیں۔
جنوبی ہند میں غالباً کوئی تعلیمی ادارہ فارغین مدارس کو وکالت کی تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس منہج کو دوسرے علاقوں میں بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن وکالت اور کامرس میں داخلہ لینے کے اہل بنانے کے لئے بڑے دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کو نصاب میں بعض بنیادی کتابیں شامل کرنی ہوگی اور دل و دماغ میں وسعت فکر پیدا کرنا ہوگا ۔
یہ عذر کافی نہیں ہوگا کہ اہل خیر کی جانب سے مدارس دینیہ کو مالی تعاون صرف دینی تعلیم دینے کے لئے ملتا ہے!
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)