تحریر:مولانا فتح محمد ندوی
امانتیں ان کے اہل تک پہچانا بھی ایک سماجی اور دینی فریضہ میں داخل ہے۔ سورہ النساء کی آیت نمبر اٹھاون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ذمہ داریاں ان کے اہل کے سپرد کرو۔ مفسر قرآن حضرت اقدس مفتی شفیع عثمانی نوراللہ مرقدہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق تک پہونچا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے امانت کی بڑی تاکید فرمائی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں ارشاد نہ فرمایا ہو: لا ايمان لمن لا امانة له ولا دين لمن لا عهد له. یعنی جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔
عام طور پر ہمارے سماج میں امانت کے تصور سے مال و دولت مراد ہی لیا جاتا ہے جبکہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا مال کسی کے پاس رکھا ہو بلکہ امانت کی اور بھی قسمیں ہیں۔عہدے ۔منصب وغیرہ جیسے اس آیت کے شان نزول میں خانہ کعبہ کی چابی کوئی مالی امانت نہیں بلکہ بیت اللہ کی خدمت کا ایک عہدہ ہے.لیکن اس کو بھی امانت میں شامل کیا گیا ہے۔
آج معاشرے میں بڑھتا ہوا اخلاقی۔ معاشی۔ سماجی اور خاص طور پر تعلیمی انحطاط اور زوال کا سبب یہی امانتوں میں خیانت ہے۔ یعنی امانتیں ان کے اہل تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے عہدوں کے اہل نہیں۔لیکن وہ زور زبردستی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ صرف اس بنیاد پر کہ ان عہدوں پر پہلے سے ان کے باپ دادا موجود ہیں یا تھے۔یہی آبا و اجداد کا تمغہ صرف ان نا اہل لوگوں کی حجت کا سامان بن جاتا ہے۔اور پھر وہ قابض بلکہ غاصب ہوجاتے ہیں۔اس کے برعکس جو ان عہدوں کے اہل اور قابل ہوتے ہیں وہ کنارے کر دیے جاتے ہیں۔یا خود وہ مایوس ہو کر الگ ہوجاتے ہیں۔
یاد رکھیے عہدے بھی امانت ہیں۔جو ان کے اہل تک پہچانے لازم اور اشد ضروری ہیں۔عظیم محدث اور مفسر قرآن حضرت اقدس مفتی زرولی خان صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے۔ تو اپنے عظیم منصب امامت کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگے بڑھایا۔ حالانکہ اس وقت آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں موجود تھے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین نے اس کا بھر پور خیال رکھا۔کہ جو جس عہدہ کا اہل ہو اس کو دیا جائے۔حتیٰ کہ خلفاء راشدین کے بعد بھی ہمارے اسلاف نے اس کا بھر پور خیال کرکے عہدے ان کے اہل تک پہنچائے۔
تاہم اس عہد میں امت کے باشعور طبقے اور خاص طور پر طبقہ خاص بلکہ اہلیان منبر و محراب نے اس حوالے سے یعنی امانت میں خیانت کا پوری جرأت کے ساتھ ارتکاب کیا ہے بلکہ اپنی من مانی اور ہٹ دھرمی سے امانت کے اس اہم دینی اور اسلامی تصور کو یکسر نظر انداز کر کے جرم عظیم کیا ہے۔جبکہ گزشتہ اقوام کی خاص طور پر بنی اسرائیل کی تباہی اور زوال کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ انہوں نے اپنے اعزازی منصب۔ دینی اور مذہبی امور کی قیادت کے لیے ایسے نااہل اور بدکردار لوگوں کو منتخب کیا جو کسی بھی اعتبار سے ان عہدوں کے اہل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم قعر مزلت میں چلی گئی۔
ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مدد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے۔ نہ نفل یہاں تک وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔(گلدستہ تفسیر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا۔ یعنی جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی جو کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔ (معارف القرآن)
امانت داری ہی عدل کی بنیاد ہے اگر کوئی شخص امانت دار نہیں تو اس سے عدل و انصاف کی قطعی امید نہیں کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ بقول صاحب تفسیر حقانی کے جو آپ نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے۔ اولا امانت کا حکم اس لیے دیا کہ جب خود اصلاح پذیر ہو جائے گا تو اس کے بعد کرسی عدالت پر بیٹھنے کی صلاحیت رکھے گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)