جگدیشور چترویدی
بنگال اسمبلی انتخابات میں مذہبی بنیاد پرستی داخل ہوگئی ہے ۔اس کا سہرا نریندر مودی کو جاتا ہے۔ بنگال اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انتخابی مہم کے اختتام کے بعد پی ایم نریندر مودی نے بنگلہ دیش جاکروہاں متوا برادری کےمندرپوجاکرکے اسمبلی انتخابات میں مذہب کا استعمال کیا ہے ، انتخابات میں مذہب کا استعمال ، مذہب پر یقین رکھنے والوں پر حملہ یا یا ان کی وکالت ، مذہبی علامتیں اوربھگوان کا استعمال براہ راست مذہبی بنیاد پرستی ہے۔ بی جے پی کے جلسوں میں جئے شری رام کا نعرہ بار بار استعمال کیا جارہا ہے ۔بی جے پی کے رہنما کارکن اس کو پروپیگنڈے میں استعمال کررہے ہیں۔اس سے مذہبی عناد کو تقویت ملے گی اور جمہوریت کمزور ہوگی۔
رام کو مانیں ، ان کی پوجا کریں ، لیکن رام کو سیاست سے دور رکھیں ورنہ رامپھربھگوان نہیں ، ایک سیاسی ہتھیار بن جائیں گے ، افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم سے ملک میں ایسا ہورہا ہے۔ رام کو پوجا کی علامت کےبجائے سیاسی پولرائزیشن کی علامت بنایاگیا ہے ۔قابل ذکر ،جئے شری رام‘ نعرہ اصل میں ’جئے بنگلہ‘ کی نقالی کرکے تیار کیا گیا تھا ، جو 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی جنگ میں ابھرا تھا ۔اس سے پہلےہندوستان میں کوئی بھی جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگاتاتھا۔
مذہبی بنیاد پرستی مذہب کے تمام نظریاتی اور اخلاقی طرز عمل سے متعلق اختلافات کو ختم کرتی ہے اور انھیں سیاسی متحرک اور سیاسی سوچ میں بدل دیتی ہے۔اس فرقے کے لوگ’سناتن ہندو ازم‘ کا مقابلہ کرکے ، اس کی اخلاقیات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مذہب کی تشہیر کر رہے ہیں اور انہوں نے’سناتن ہندو دھرم‘ کواپنے برتاؤ سے مسترد کردیا ہے۔ جبکہ مودی-آر ایس ایس’سناتن ہندودھرم کے حمایت کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے رام کو بھی سناتن ہندودھرم کا ایک حصہ بنادیا ہے ، جبکہ بھکتی تحریک کے شاعروں اور سنتوں نے سناتن ہندو دھرم سے جدوجہد کرتے ہوئے رام کی بھکتی کی تشہیر کی، اس تشہیر کے نظریات تھے شاعر گوسوامی تلسی داس ۔ان کے پہلےبالمیکی نے رام کو جس طرح تخلیق کیا اور ان کی جس شکل کی وکالت کی گئی اس کا سناتن ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ان تمام اختلافات کو قبول کرنے اور جاننے کے بجائے مذہبی بنیاد پرستی دھرم اور رام کے سیاسی استعمال پر زور دیتی ہےبنگلہ زبان میں جورامائن ہے اس میں جئےشری رام کا نعرہ نہیں ہے ، یہ بالمیکی داس اور تلسی داس کی تحریروں میں نعرہ نہیں ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے مذہبی بنیاد پرستی بنگال میں داخل ہورہی ہے۔
مذہبی بنیاد پرستی کا ایک اور پہلو لسانی اظہار میں اردو الفاظ کی مخالفت ہے۔ بی جے پی کے امیدوار یہ کام اپنی طرح سے کررہے ہیں۔بنگالی زبان میں ہندی اردو وغیرہ کے الفاظخوب استعمال کیے جاتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کا ایک سرا CAA کے نفاذ کے ساتھ بھی جڑا ہے۔ریاست کے عوام متفقہ طور پر اس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔اس کے باوجودکہ بنگال اسمبلی نے اس کے خلاف ایک قرار داد منظور کی ہے بی جے پی سی اے اے کو نافذ کرنے پر زور دے رہی ہے۔ یہ وہ منظر ہے جو بنگال میں مذہبی بنیاد پرستی کو ہوا دے رہا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)