تحریر:عمران قریشی
’ٹیپو سلطان حملہ آور نہیں تھے، وہ کہیں اور سے یہاں نہیں آئے تھے۔ وہ بہت سارے ہندوستانی حکمرانوں سے زیادہ اپنی آبائی سرزمین سے وابستہ تھے۔ یہ کہنا کہ وہ حملہ آور تھے ان کے بارے میں بڑی غلط فہمی کا مظہر ہے۔‘
عہد وسطی میں ہندوستان کی ایک ریاست کے بادشاہ ٹیپو سلطان کی سلطنت اور ان کے عہد پر گہری نظر رکھنے والے مورخین ممبئی کے ایک پارک کو ان کے نام سے منسوب کیے جانے کے تنازعے پر حیران نہیں ہیں، کیونکہ مرہٹہ (مراٹھا) پیشواؤں سے ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کی کئی جنگیں ہوئی تھی۔
18ویں صدی میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں مارے جانے والے ملک کے واحد حکمران کے خلاف یہ نیا تنازع ان کے بارے میں اصل ’تاریخی‘ حقیقت کی بجائے ان کے متعلق پھیلی کہانیوں پر مبنی ہے۔
کم از کم ایک مورخ اس بات سے متفق ہیں کہ ٹیپو سلطان کی موجودہ مخالفت کو دیکھتے ہوئے ان کے نام پر پارک یا کھیل کے میدان کا نام رکھنے کا خیال لوگوں کے ایک خاص گروہ کے لیے پہلی نظر میں بظاہر ناگوار ہوسکتا ہے۔
ٹیپو سلطان ایک قومی ہیرو تھے
میسور یونیورسٹی میں ٹیپو چیئر کے پروفیسر، پروفیسر سیبسٹین جوزف نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مہاراشٹر کے لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ٹیپو سلطان ایک قومی ہیرو تھے کیونکہ 19ویں صدی تک ‘ایک ’ہندوستان‘ یا ہندوستانیت کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مراٹھا، بنگال یا میسور کی شناخت تھی۔‘
لیکن جس چیز نے مورخین کو حیران کر رکھا ہے وہ ٹیپو سلطان کے بارے میں یہ کہنا جانا ہے وہ ‘جنوبی ہندوستان کے سب سے سفاک حملہ آوروں میں سے ایک تھے۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے سے ریٹائر ہونے والی پروفیسر جانکی نائر کہتی ہیں کہ ’وہ حملہ آور نہیں تھے، وہ کہیں اور سے یہاں نہیں آئے تھے۔ وہ بہت سارے ہندوستانی حکمرانوں سے زیادہ اپنی آبائی سرزمین سے وابستہ تھے۔ یہ کہنا کہ وہ حملہ آور تھے۔ یہ اس شخص کے بارے میں بڑی غلط فہمی کا مظہر ہے۔‘
تاریخ کے پروفیسر این وی نرسمہا کہتے ہیں کہ ’ٹیپو ان عظیم وطن پرست لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے انگریزوں، مرہٹوں اور حیدرآباد کے نظام کی مشترکہ افواج کے خلاف جنگ لڑی۔ ان کے خلاف اس قسم کی مہم کا چلایا جانا کہ وہ ملک کے دشمن نمبر ایک ہیں، یہ تعصبات کی وجہ سے ہے۔‘
ٹیپو اور پیشوا
پروفیسر نرسمہا کہتے ہیں کہ ’جو لوگ تاریخ نہیں جانتے وہی ٹیپو سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن وہ حیدرآباد کے نظام کے بارے میں ایسا نہیں کہتے جنھوں نے ٹیپو سلطان سے لڑنے کے لیے انگریزوں اور مرہٹوں سے ہاتھ ملایا تھا۔‘ انھوں نے سری نگیری مٹھ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس مٹھ کے سوامی (مذہبی پیشوا) کو مراہٹہ راجہ رگھوناتھ راؤ پٹوردھن کی قیادت میں ہونے والے حملے سے بچنے کے لیے کارکلا بھاگنا پڑا تھا۔ پروفیسر نرسمہا کہتے ہیں: ‘مراہٹہ یا پیشوا فوج نے مندر پر حملہ کر دیا اور تمام زیورات لے گئے اور وہاں رکھے دیوتاؤں کی بے حرمتی کی۔
’پیشوا نے جو کچھ بھی لوٹا ان چیزوں کو ٹیپو سلطان نے مندر کو عطیہ کیا۔ انھوں نے اپنی رعایا کو آشیرباد دینے کی درخواست کرتے ہوئے سردار پجاری کو کئی خطوط لکھے۔ انھوں نے کئی دوسرے مندروں میں بھی ایسا ہی کیا۔ ان میں ننجن دیشور مندر بھی شامل ہے جسے وہ حکیم ننجن دا کہتے تھے کیونکہ ان کی آنکھوں کی تکلیف وہیں دور ہوئی تھی۔‘سرکاری دستاویزات میں یہ بھی لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان نے ملکوٹ، کولور موکامبیکا مندر اور دیگر کئی مندروں کو زرو جواہر، زیورات اور تحفظ بھی فراہم کیا تھا۔
ماضی کا استعمال تعصبات پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے
پروفیسر جانکی نائر کا کہنا ہے کہ ’مرہٹہ جنگ چھیڑنے میں پیچھے نہیں تھے۔ بنگال پہنچنے والے مرہٹوں کو یاد کرکے آج بھی وہاں لوگوں کی روح کانپ جاتی ہے۔ وہ 10ویں صدی کے حکمران تھے جو ظاہر ہے بہت ظالم تھے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ماضی کا استعمال تعصبات پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسے کوئی تاریخی سمجھ پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔‘
کیا وہ اب بھی ملک کے ہیرو ہیں؟
پروفیسر نائر کہتی ہیں: ’اب نہیں۔ جبری تبدیلی مذہب اور ظلم و ستم کی جو خبریں اب منظر عام پر آ رہی ہیں، وہ 18ویں صدی کا مزاج تھا۔ اس شخصیت نے موت کے بعد کئی زندگیاں دیکھی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں: ’پہلے انگریزوں نے ان کے بارے میں لکھا کہ وہ بہت ظالم و جابر حکمراں تھے۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور میدان جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سب مٹا دیا گیا، کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور ان کے پاس اس وقت کے دوسرے حکمرانوں کی طرح ظلم و جبر کا ریکارڈ تھا۔ اور یقیناً، انھوں نے کچھ لوگوں کے مذاہب کو تبدیل کرایا لیکن ان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کرکے ہندو اکثریتی ملک پر حکمرانی نہیں کر سکتے تھے۔‘
پروفیسر نائر کہتی ہیں: ’دراصل، ٹیپو سلطان کی اپنی فوج میں چھ یونٹس تھیں۔ ان میں سے دو یونٹ مرہٹوں اور راجپوتوں کی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی مختلف حیثیتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔ وہ مرہٹوں اور راجپوتوں کی مختلف برادریوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک کو مناسب تنخواہ دیا کرتے تھے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ 1960 اور 70 کی دہائیوں میں مورخین ٹیپو سلطان کے معاشی منصوبوں، زراعت کی ترقی اور ریشم کی صنعت کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے یہ منصوبے ‘بہت ترقی پسند تھے۔
بی بی سی کے ساتھ پہلے ایک انٹرویو میں بنگلور میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز کے پروفیسر نریندر پاننی نے اپنی کتاب ’ریفارم ٹو پری ایمپٹ چینجز – لینڈ لیجسلیشن ان کرناٹک‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹیپو کے زمانے میں زمین براہ راست حکومت کے کنٹرول میں تھی۔ یہ کاشتکاروں کو لیز پر دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا، سب کو زمینیں ملیں۔ لیکن مالابار میں یہ نظام ناکام ہو رہا جہاں بڑے زمینداروں کا الگ نظام تھا۔‘
درحقیقت ٹیپو کی موت کے بعد انگریزوں نے خود ٹیپو کے زرعی نظام کو اپنایا جسے ریت واری نظام کا نام دیا گیا۔ لارڈ کارنوالس کا زمینداری نظام میسور میں کام نہیں کر سکا کیونکہ ٹیپو نے خود وہاں کا زرعی نظام بنایا تھا۔
پروفیسر نایر کے مطابق سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں ٹیپو سلطان کے خلاف ایک قسم کی ناراضگی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔’اسے دو طرح کے مخصوص بیانیے کے ذریعے کنٹرول کیا شروع جانے لگا۔ ایک نام نہاد تبدیلی مذہب اور کننڑ زبان کو فروغ نہ دینا اور مندروں کو تباہ کرنا بھی شامل تھا۔ یہ ایک بہت ملی جلی تصویر ہے کیونکہ اس بات کے بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ ٹیپو نے بہت سے مندروں کو بہت عطیہ دیا تھا۔’
’حتی کہ دائیں بازو کے مورخوں میں شمار ہونے والے سوریہ ناتھ یو کامتھ نے ٹیپو کو کرناٹک کی تاریخ کی کتاب میں صحیح جگہ دی ہے، جو کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بدل دی گئی ہے۔‘
کیا بدلا ہے؟
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ جو تاریخ ہے اس میں واضح طور پر تاریخی علیحدگی ہے۔ اس کی وجہ وہ گذشتہ چند دہائیوں میں کی جانے والی تحقیق اور لوگوں میں ایک مقبول سمجھ کے درمیان کی خلیج بتاتے ہیں۔
پروفیسر نائر کہتی ہیں: ’ٹیپو سلطان ایک بہت پیچیدہ اور مرکب ومخلوط قسم کی شخصیت ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جہاں تاریخی نقطہ نظر سے ان کے بارے میں مثبت بات کرنا ملک دشمنی ہے۔ یہان یہ بتا دوں کہ ناسا کے پاس ٹیپو سلطان کی ایک تصویر ہے کیونکہ وہ راکٹ کے فروغ اور اس کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے والوں میں پیش پیش تھے جسے بعد میں انگریزوں نے چوری کر لیا تھا۔‘
‘بدلتے سیاسی تناظر میں ایک قومی ہیرو کے طور پر ٹیپو سلطان کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں نئے چہرے اور نئے نام پیدا کرنے کے منصوبے کے تحت دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر نائر کہتی ہیں: ’ممبئی میں کھیل کے میدان یا پارک کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ٹیپو سلطان آج مسلمانوں کے خلاف احتجاج کی ایک آسان علامت بن چکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب چہار جانب سے وہ (مسلمان) اتنے گھرے ہوئے ہیں تو مسلمانوں کے لیے ٹیپو سلطان کا ذکر بھی فخر کی علامت بن جاتا ہے۔‘
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)