تحریر:افضل ندوی
بتاریخ 31 مارچ داعی اسلام مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب اور ان کے رفیق غار حافظ ادریس صاحب کو لکھنؤ جیل سے قیصر باغ کورٹ لایا گیا، جس کی پیشگی اطلاع کے سبب کچھ احباب وہاں پہنچ گئے تھے،ہم اور مولانا یونس صاحب جب وہاں پہنچےتو حضرت والا کمرۂ عدالت میں موجود تھے،ایڈووکیٹ اسامہ ندوی کے رفقاء کے ساتھ قانونی صلاح ومشورہ جاری تھا جو ہم کھڑکی سے صاف دیکھ پارہے تھے، تھوڑی دیر بعد سرکاری عملے نے چلنے کے لئے کہا اور سارے لوگ کمرے سے باہر نکلے سارے احباب کی طرف حضرت مصافحے کے لئے بڑھے لیکن غالباً دو چار احباب ہی اس شرف سے مشرف ہوسکے،کہ عملے نے بےجا مستعدی کا مظاہرہ کیا اور گاڑی کی طرف جانے لگے،اسی دوران بندہ موقعہ پاکر حضرت کا داہنہ ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ کر شانہ بہ شانہ چلنے لگا،اور حضرت نے جو کلمات فرمائے،وہ سننے لگا۔
پھر حضرت گاڑی میں سوار ہوگئے،ایڈووکیٹ اسامہ اور حضرت کے رشتے دار کچھ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آئے تھے، جس کے لئے سب نے سسٹم کی منت سماجت کی لیکن کسی قیمت پر اس کی اجازت نہیں دی گئی حتی کہ پیک شدہ مشروب کا ایک گھونٹ تک پینے کی پرمیشن نہیں دی گئی،یہ بے بسی دیکھ کر تقریباً سبھی کی آنکھیں بھر آئیں، حضرت نے سادہ وردی میں کھڑے بڑے صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا وہ بڑے صاحب سے اجازت لے لو شاید وہ پرمیشن دیدیں،ایڈووکیٹ اسامہ لپک کر گئے لیکن یہاں تو سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا، یہ آخری کوشش تھی جو ناکام ہوگئی، میری نظروں میں شعب ابی طالب کے اس معصوم قیدی کی تصویر گھومنے لگی جس پر خدا کی ہر نعمت نچھاور ہوا چاہتی تھی، جس کا دل عام انسانیت کے لئے تڑپتا تھا لیکن اسے اس مرحلے سے گزارا گیا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑے شدت بھوک کی وجہ سے ایک ایک دانے کے لئے شعب ابی طالب کی چٹانوں پر ایڑیاں رگڑتے تھے، پھر پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ببول کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے، جب کہ اسی مکہ میں چند قدم کے فاصلے پر آب زمزم کے ساتھ ساتھ خورد ونوش کی ہر شے فراہم تھی، لیکن وقت کا ظالم حائل تھا۔
اور آج اسی سنت دعوت کی تجدید کر نے والا ایک بندہ جو شاید اسی قافلے کا ایک بچھڑا ہوا مسافر ہے، جسے مشیت ایزدی نے چودہ صدیوں بعد کے لئے رکھ چھوڑا تھا،اپنے عزیزوں کے ہاتھوں ایک ٹکڑا روٹی اور ایک بوند پانی کے لئے اجازت چاہتا تھا، لیکن اسے اجازت نہ ملی،، پھر بھی اس کے ماتھے پر سکون واطمینان،استقامت واستقلال کی جو لکیریں تھیں،وہ خدا کے الوالعزم بندوں ہی کی پیشانیوں پر ہوتی ہیں،جو دراصل بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ہوتی ہیں۔
اسی دوران گاڑی اسٹارٹ ہوگئی اور حضرت کے آخری جو الفاظ کھڑکی سے سنائی دئیے وہ یہ تھے کہ بھائی ذرا فیصل کا معاملہ ان کے متعلقہ لوگوں سے مل کر حل کرو، بعد میں مولانا یونس صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ وہ بھی کوئی معصوم نوجوان قیدی ہے جو ایک سال سے ایک ناکردہ جرم کی سزا جھیل رہا ہے۔پھر گاڑی کے پہئے ہماری دلوں پر گھومنے لگے،اور ہمارا معصوم قیدی آنسوؤں کے پردے میں اوجھل ہوگیا۔