تحریر: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
(1)اگرآپ تراویح پڑھاتے ہیں تو یادرہے کہ آپ صرف اپنی نمازنہیں پڑھ رہے ہیں، بلکہ دوسروں کی امامت کررہے ہیں، لہٰذاان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
(2) رکعت کو نہ بہت زیادہ لمبی کریں کہ لوگ اکتاجائیں اور دوچاردن ہی میں تروایح میں آناچھوڑدیں، اورنہ اتنی مختصرکریں کہ کسی دن بہت زیادہ لمبی کرناپڑے۔
(3)رکعت کی مقدار روزانہ مناسب رکھیں۔عام طورپرحفاظ کرام شروع بہت زیادہ لمبی رکعتیں پڑھاتے ہیں جو مناسب نہیں ہے، کیوں کہ ایک سال کے بعد اتنی لمبی رکعت پڑھناہر کس وناکس کےلئے دشوارہوگا۔ ہاں جب چنددنوں کی عادت ہوجائے تو کسی قدر لمبی ہوجائے تو قابل تحمل ہوگا۔
(4) نمازتراویح سنن ومستحبات کے مطابق پڑھائیں۔
(5)تلاوت اتنی جلدی جلدی نہ کریں کہ الفاط سمجھ میں نہ آئیں، بلکہ حروف کی ادائیگی، غنہ اخفا،اظہارمدوغیرہ کی مکمل رعایت کریں۔
(6) ٹھہر ٹھہر کر اور صاف صاف پڑھیں۔
(7)تکبیرتحریمہ کے بعد ثناء ضرورپڑھیں،بعض حفاظ ثناء نہیں پڑھتے ہیں،یہ درست نہیں ہے۔
(8) رکوع اورسجدہ میں کم از کم پانچ مرتبہ تسبیح پڑھیں،تاکہ لوگ تین مرتبہ پڑھ سکیں، رکوع ،سجدہ کو مختصرنہ کریں۔
(۹)رکوع کے بعد مکمل طورپرکھڑے ہوں،پھر سجدہ میں جائیں۔
(10)دونوںسجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھیں پھر دوسراسجدہ کریں۔
(11)التحیات ، درود شریف اوردعاء ماثورہ اطمینا ن سے پڑھیں۔بعض حفاظ اتنی جلدی سلام پھیردیتے ہیں کہ مقتدیوں کاالتحیات ا وردرود شریف بھی پورانہیں ہوتا ہے، اس لئے ایسانہ کریں یہ شرعا بھی درست نہیں ہے۔
(12) ہررکن اورعمل کو اطمینان سے اداکریں،کیوں کہ تعدیل ارکان واجب ہے، جس کے چھوڑنے پر گناہ ہوگا۔
(13)ترویحہ یعنی چاررکعت پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کرنا مستحب ہے۔
(14)چار رکعتیں جتنی دیر میں پڑھی گئیں اتنی دیر بیٹھنا چاہئے یا کم سے کم ایک منٹ تو ضرور بیٹھیں؛تاکہ لوگ سستالیں، بعض حضرات صرف دس ،بیس سکنڈ ہی بیٹھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
(15)اگر کوئی مقتدی یا مسجد کا متولی اوپر مذکور امور کے خلاف کرنے کے لئے کہے مثلا نماز جلدی جلدی پڑھانے کے لئے یا ترویحہ مختصر ترین کرنے کے لئے کہے تو ان کی بات نہ مانیں، بلکہ انھیں پیار سے سمجھادیں کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔