تحریر: قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
حضورِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے بعد آپؐ کے جاں نثارحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیات طیبہ ہمارے لئے عمدہ نمونہ اور بہترین مشعل راہ ہے۔یہ لوگ دین کو سمجھنے والے اور پھیلانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ایک ایک حکم پر سر تسلیم خم کرنے والے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا اور ایک ایک سنت پر مر مٹنے والے ہیں، انہوں نے کہہ کر نہیں، بلکہ عمل کرکےبھی دکھایا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی وہ مقدس اور پاکیزہ جماعت ہے جنہیں دُنیا ہی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رضاء و خوشنودی کی سند عطاء کی ہے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ان کے ایمان واعمال کو صحیح اوردرست کامعیاربنایاہے۔اس لئے آئیے دیکھتے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں صحابہ کرام کےکیامعمولات تھے؟
صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے معمولات کو ترتیب دیدیاکرتے تھے۔جس میں روزہ، قیام اللیل یعنی تہجدو تراویح، تلاوت قران کریم اورصدقہ وخیرات ہوتے تھے۔
صحابہ کرام کے روزے:
صحابہ کرام خوشدلی سے روزہ رکھاکرتے تھے، حتیٰ کہ سفر اور جنگ کے دوران بھی روزہ رکھتے تھے، گرمی کی تمازت بھی ان کے روزے میں حائل نہیں ہوتی تھی۔حضرت ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپؓ روزہ کی حالت میں گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے کپڑا بھگوکر اپنے اوپر ڈال رہے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)یہی وجہ ہے کہ ان کاروزہ کامل و مکمل ہوتاتھا، روزے کے مقاصد میں وہ کَھرےاترتے تھے،وہ روزے کے فوائدسے بھرپورفائدہ اٹھاتے تھے، ان کی نمازیں قابل رشک ہوتی تھیں،تلاوتِ قرآن کریم بھی دلوں کو نرم اور گرم کرنے والی ہوتی تھی۔کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ بہت سے روزے دارایسے ہیں جن کو بھوک وپیاس کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتااوربہت سےراتوں میں نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جنھیں رات جاگنےکے سوا کچھ نہیں ملتا، کیوں کہ انھوں نے روزےکاحق ادانہیں کیاہواہوتاہے۔روزہ کاحق یہ ہے کہ لایعنی باتوں سے بچاجائے، آنکھ ، ناک، کان،زبان اور دل ودماغ کو گناہوں سے پاک رکھاجائے۔اورانھیں اللہ کی یاد میں مشغول رکھاجائے۔چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو گناہوں کی بات نہ کیاکرے، نہ کسی کو گالی دے، اورنہ کسی کےساتھ الجھے، اگر تمہارے ساتھ کوئی ایساکرتاہے کہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہو سکے لایعنی باتوں سے بچو‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:8878)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تم روزہ رکھو تو تمھارے کان، تمھاری آنکھیں اور تمھاری زبان جھوٹ اور گناہوں سے روزہ رکھیں۔ خادم کو تکلیف دینے سے باز رہو، اور تم پر وقار اور سیکنت ہو۔تم اپنے روزے اور اپنے غیرروزے کے دن کو یکساں مت بناؤ‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:8880)
دنیاوی خرافات سے بچنے کے خاطر بعض صحابہ کرام روزہ کی حالت میں مسجد ہی میں رہتے تھے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ اوران کے ساتھیوں کے بارے میں روایتوں میں آتاہےکہ جب روزہ رکھتے تو مسجد میں رہتے تھے‘‘ (النہایۃ فی غریب الحدیث : مادہ:ذرب ، مصنف ابن ابی شیبۃ:8881) ۔
فقرا ءاور مہمانوں کی دعوت:
روزہ کاپوراحق اداکرنےکے علاوہ صحابہ کرام رمضان میں اپنے مالوں کابھی پوراحق اداکیاکرتے تھے،زکات کے علاوہ صدقات وخیرات کی بھی کثرت کرتے تھے، غریب ومسکین اوراپنے دوست واحباب پر دل کھول کرخرچ کرتے تھے، ان کی دعوت کیا کرتے تھے، سحری اورافطاری کاانتظام کرتے تھے۔اصحابِ صفہ جو مسلمانوں میں معاشی لحاظ سے کمزور لوگ تھےاور مسجد نبوی میں بسیرا کرتے تھے۔انھیں کھاناکھلاتے تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جب رمضان کامہینہ آیا تو ہم صفہ میں تھے۔ ہم نے روزہ رکھا، جب افطارکاوقت ہوتا، توایک ایک آدمی آتا اور ہم میں سے کسی کواپنے ساتھ لے جا تا،اور رات کا کھانابھی کھلاتا ‘‘ ۔ (حلیۃ الاولیاء ۳/۲۲، دلائل النبوۃ للبیہقی ۶/۱۲۹، تاریخ دمشق : ۱۶/ ۴۵۷)
سحری اور افطاری میں مدعو کرنا:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ کبھی آپ کے شاگرد سحری کھایا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۰۲۴)ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے کہ ’’ہم رمضان میں ابن عباسؒ کے ساتھ افطار کیا کرتے تھےاورکھانابھی کھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:8943)
رات کے معمولات:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے،تراویح کے بعد نوافل میں مشغول ہوجاتے تھے،اپنے قیام میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ رات کا اکثر حصہ تلاوت ِ قرآن ، نماز، اور ذکر واذکار واستغفار میں گزارتے تھے۔حضرت عبداللہ بن ابو بکررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کوجلدی کھانا لانے کے لئے کہتے تھے، کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے‘‘۔ (موطا امام مالک: ۱/۱۱۶، فضائل الاوقات للبیہقی : ۱۲۹، ص۲۸۰)
صحابہ کرام کی نمازوں اورتراویح کایہ حال تھاکہ طویل قیام اورلمبے رکوع وسجود کی وجہ سے جب وہ تھک جاتے تھے تو لاٹھی وغیرہ سے سہارہ لینے کی ضرورت پڑتی تھی، چنانچہ امام بیہقیؒ وغیرہ نے سائب بن یزیدؒ سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے، اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طویل قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگالیتے تھے ‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی ، ۲/۴۹۶، مختصر قیام اللیل ، ۹۶)
حضرت عبدالرحمٰن بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’میں نے رمضان میں صحابہ کرام کو دیکھاکہ وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے، تا کہ اس سے سہارا لیں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)۔یہ تھے صحابہ کرام کے معمولاتِ رمضان، آج ہم ان کے نام لیواہیں تو ہمیں بھی ان کی طرح اپنے معمولات بنانے چاہئیں۔فقط