سنبھل:کوتوالی پولیس نے سنبھل تشدد معاملہ میں شاہی جامع مسجد کمیٹی کے صدر ایڈوکیٹ ظفر علی کو گرفتار کرلیا ـ صدر پر 24 نومبر کو ہونے والے فساد میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے اشتعال انگیز بیان دیا تھا۔ دعویٰ ہے کہ ایس آئی ٹی کی جانچ میں حقائق سامنے آنے کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔اے ایس پی شریش چندر کا کہنا ہے کہ انہیں 24 نومبر کے فساد میں ملزم بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب شہر میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی تھانوں کی پولیس کے علاوہ پی اے سی اور آر اے ایف کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اہلکار فلیگ مارچ بھی کر رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ ظفر علی کے بھائی ایڈووکیٹ امراجالا کے مطابق طاہر علی نے پولیس انتظامیہ کے اہلکاروں پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بھائی کو پیر کو جوڈیشل انکوائری کمیشن کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرانا ہے اس لیے پولیس نے منصوبہ بند طریقے سے کارروائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے کمیشن کو بتایا تھا کہ گولی پولیس نے چلائی تھی اور اس میں پانچ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ بیان ریکارڈ کرانے جاتے، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی بیان ان کے بھائی جیل میں رہتے ہوئے بھی ریکارڈ کرائیں گے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ایڈووکیٹ ظفر علی اور پولیس اہلکاروں کے درمیان اس سے قبل بھی کئی بار کہا سنی ہو چکی ہے۔ جامع مسجد کمیٹی کے سربراہ نے 24 نومبر کو فسادات کے دوران پولیس پر فائرنگ کا بھی الزام لگایا تھا۔
معلومات کے مطابق 19 نومبر کو جامع مسجد کے اندر ایڈوکیٹ کمیشن کے سروے کے دوران ایڈوکیٹ ظفر علی سروے ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔ اس کے بعد 24 نومبر کو جامع مسجد کے دوسرے ایڈوکیٹ کمیشن سروے کے دوران جامع مسجد کمیٹی کے صدر ایڈوکیٹ ظفر علی بھی سروے ٹیم کے ساتھ اندر موجود تھے۔
24 نومبر کو سروے کے دوران جب ہجوم جمع ہونا شروع ہوا تو جامع مسجد کمیٹی کے صدر ایڈوکیٹ ظفر علی سروے ٹیم کو مسجد کے اندر چھوڑ کر باہر چلے گئے اور ہجوم میں موجود لوگوں سے بات چیت کی۔ ایس آئی ٹی ٹیم اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ ظفر علی نے سروے کے دوران بھیڑ سے کیا بات کی تھی۔بعض ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ ان سے فنڈنگ کے بارے میں بھی پوچھ گچھ گئی ہے