سراج نقوی
اتر پردیش میں آئیندہ سال ہونے والے اسمبلی الیکشن میں اپوزیشن کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھیگا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔جبکہ دوسری طرف بی جے پی نے کافی پہلے سے اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے جنگی پیمانے پر کوششیں شروع کر دی ہیں۔وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی حالیہ ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔موریہ کے کچھ بیانات کے بعد سوشل میڈیا میں دونوں لیڈروں کے درمیان اختلافات کی خبریں آئی تھیں لیکن دونوں کی غیر متوقع ملاقات نے ان خبروںکی تردید کر دی۔خبریں تو یہ بھی آرہی ہیں کہ یوگی اور مودی کے رشتے بھی پہلے جیسے نہیں ہیں۔چند روز قبل ہی مودی کے قریبی سابق نوکر شاہ اے کے شرما کو ریاستی بی جے پی کا نائب صدر بنائے جانے اور ریاست بھر میں نوکر شاہوں سے ان کے راست رابطے نے ان خبروں یا افواہوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی ہے،لیکن اس کے باوجود بی جے پی اپنی جیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’ہر ممکن کوشش‘میں مصروف ہے۔بی جے پی کی مرکزی قیادت اور خود آر ایس ایس الیکشن نزدیک دیکھ کر سرگرم ہو گیا ہے۔اس کے علاوہ جس طرح سے اچانک ریاستی پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے تبدیلی مذہب کے نام پر کچھ گرفتاریاں کی ہیں وہ بھی بے سبب نہیں ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں مذہب تبدیل کرنے والے کئی افراد نے اس بات سے بہت مضبوطی سے انکار کیا ہے کہ انھوں نے کسی جبر کے نتیجے میں مذہب بدلا۔نہ صرف میڈیا کے سامنے بلکہ عدالت میں بھی کچھ متاثرین نے تبدیلی مذہب کی مبینہ سازش کے پولیس کے دعووں کی پولی کھول دی ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند شدّت پسند ہندو تنظیموں کے دبائو میںتبدیلی مذہب کے معاملوں کو اچھالا جا رہا ہے، تاکہ ایک خاص فرقے کو نفسیاتی طور پر دبایا جا سکے۔ ایسے معاملات کے پس پشت انتخابی مفادات ہونے اور ووٹوں کی کسی نہ کسی بہانے صف بندی کرنے کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بی جے پی کارکنوں اور سنگھ کے سویم سیوکوں کو بھی ابھی سے الیکشن سے متعلق ذمہ داریاں سونپنے کا سلسلہ ابھی سے شروع ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی تقریباً تمام اہم پارٹیاں ’’اپنی ڈفلی اپنا راگ‘‘کی شکار نظرآتی ہیں۔
بی ایس پی ریاست کی اہم سیاسی پارٹی ہے۔دلت ووٹوں پر اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے اور دلت مسلم ووٹ کے سہارے کئی مرتبہ ریاستی انتخابات میں جیت بھی حاصل کر چکی ہے۔لیکن مرکز میں مودی حکومت اور ریاست میں یوگی سرکار آنے کے بعد سے پارٹی سپریمو مایاوتی نے جس طرح بی جے پی کے تئیں نرم رخ کا بار بار اظہار کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے بی ایس پی کے حق میں مسلمانوں کی یکطرفہ ووٹنگ کی امید تو قطعی نہیں کی جا سکتی۔جہاں تک دلت ووٹ کا تعلق ہے تو چندر شیکھر آزاد کے سرگرم سیاست میںآنے اور’آزاد سماج پارٹی ‘بنا لینے کے بعد دلت ووٹ پر مایاوتی کی اجارہ داری کے لیے بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔چندرشیکھر نے اعلان کر دیا ہے کہ ان کی پارٹی ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیگی۔حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ چندر شیکھر کسی دوسری پارٹی سے اتحاد کرینگے یا نہیں،لیکن دلت ووٹ صرف مایاوتی کے حق میں جانا اب ممکن نظر نہیں آتا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی ایس پی نے اسمبلی الیکشن میں کسی بھی اپوزیشن پارٹی سے اتحاد کے امکان کو مسترد کر دیاہے۔ممکن ہے الیکشن کے بعد کی کسی ممکنہ خرید و فروخت میں وہ اپنے لیے کوئی موقع تلاش کر رہی ہوں،لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ ان پر دلت یا مسلمان میں سے کوئی بھی اب پہلے کی طرح بھروسہ نہیں کریگا۔ان کی اعلان شدہ تازہ حکمت عملی سے کسے فائدہ پہنچنے کا امکان ہے یہ واضح ہے۔
بی ایس پی کی طرح سماجوادی پارٹی بھی اتر پردیش میں ایک بڑی سیاسی طاقت ہے۔حالیہ پنچایت انتخابات میں پارٹی نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنے ارادے ظاہر کر دیے ہیں،لیکن اسمبلی انتخابات میں پارٹی جیت کا پرچم لہرا پائیگی یہ کہنا اس لیے مشکل ہے کہ دونوں انتخابات کے موضوعات الگ ہوتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ سماجوادی پارٹی نے ہر چند کہ اپنے دم پر الیکشن میں اترنے کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی سے اتحاد کے امکان کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس معاملے میں پارٹی کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔لہٰذا چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا جائیگا۔ممکن ہے راشٹریہ لوک دل اور اس جیسی دیگر پارٹیوں کا سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد ہو جائے۔لیکن جہاں تک پارٹی کے روائتی ووٹ بنک کا تعلق ہے تو اکھیلیش نے کم از کم مسلمانوں کے تعلق سے تو اپنی پالیسی کا اپنے عمل سے گذشتہ برسوں میں اظہار کر دیا ہے۔اسی لیے یہ مان لینا غلط ہوگا کہ جس طرح ماضی میں سماجوادی پارٹی نے یادو اور مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار تک رسائی حاصل کی تھی اسے دوہرایا جا سکیگا۔سماجوادی پارٹی کے لیے آج بی جے پی کے خلاف موضوعات میں فرقہ پرستی کوئی موضوع نہیں ہے ۔اکھیلیش سیکولرزم کا نام لینے سے بھی بچتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی لکھنے سے بھی ان کا سنگھ مارکہ ’ہندوتو‘ انھیں روک دیتا ہے۔انکے لیے بی جے پی کے خلاف بے روزگاری اور مہنگائی کے ایشوز تو ہیں لیکن اس کی فرقہ وارانہ پالیسیوں یا سی اے اے یا لو جہاد کے نام پر پھیلائی جا رہی نفرت ،یا تبدیلی مذہب کے بہانے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنانے جیسے موضوعات کی کوئی اہمیت نہیں،اور یہ غالباً صرف اس لیے ہے کہ اکھیلیش یہ مان بیٹھے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس ان کی پارٹی کی حمایت کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔یہ خوش فہمی نہ صرف سماجوادی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ سماجوادی پارٹی کے روائتی ووٹ بنک میں بکھرائو کی راہ بھی ہموار کر سکتی ہے۔اس صورتحال کا فائدہ کسے ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔اکھیلیش نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ سن 2022کے الیکشن میں جمہوری انقلاب آئیگا۔یوگی حکومت کی کارگزاریوں کو دیکھتے ہوئے اس جمہوری انقلاب کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اس ممکنہ انقلاب کے زور کو اپوزیشن کا انتشار بے اثر کر سکتا ہے۔اکھیلیش اور دیگر پارٹیوں کی خوش فہمی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اپوزیشن کی تیسری بڑی اور قومی سطح کی دوسری بڑی پارٹی کانگریس ہے ،جس کی یوپی کی کمان اس وقت پرینکا گاندھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ہر چند کہ پرینکا اتر پردیش میں کافی سرگرم ہیں ،لیکن اس سرگرمی کو وہ کانگریس کی جیت میں بدل پائینگی یہ کہنا مشکل ہے۔اس لیے کہ بی جے پی کے خلاف غیر متحد اپوزیشن میں کانگریس کے پاس فی الحال کوئی مضبوط ووٹ بنک بھی بی ایس پی یا ایس پی کی طرح نہیں ہے۔حالانکہ پرینکا کی کوششوں کے کچھ مثبت نتائج نکل سکتے ہیں لیکن یہ نتائج بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کتنے مددگار ہونگے اور الیکشن کے بعد ہونے والی ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت سے پارٹی خود کو کس طرح بچا پائیگی یہ کہنا بھی مشکل ہے۔البتّہ اگر کانگریس اور چندر شیکھر آزاد کی پارٹی میںسیاسی اتحاد ہو جائے توکانگریس کے لیے نتائج کسی قدر بہتر ہو سکتے ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین بھی ریاستی اسمبلی الیکشن میں بڑی تعدا د میں اپنے امیدوار اتارنے کا اعلان کر چکی ہے۔سہیل دیو راج بھر کی بھارتیہ سماج پارٹی سے مجلس کے اتحاد کی بھی خبریں ہیں،لیکن یہ اتحاد بی جے پی کے سامنے کوئی بڑا چیلنج پیش کریگا یا پھر بی جے پی مخالف ووٹوں کے مزید انتشار کا سبب بنیگا یہ دیکھنا ہوگا۔مجموعی طور پر اس وقت جو حالات ہیں ان میں یہ بات بہرحال واضح ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے جا چکا ہے اور اگر اپوزیشن متحد ہو تو ریاست سے بی جے پی اقتدار کا خاتمہ ممکن ہے،لیکن اصل مسئلہ دراصل اپوزیشن پارٹیوں کا انتشار ہی ہے جو بی جے پی کے لیے سنجیونی بن سکتا ہے۔