نئی دہلی :(ایجنسی)
وہ وقت زیادہ نہیں گزرا جب امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی طاقت تھا۔ اس کی قیادت میں تمام خلیج ممالک متحرک ہو جاتے تھے لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ ایران 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکہ کے خلاف تھا، اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی امریکی حکمرانی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت صدر بائیڈن کا فون تک نہیں اٹھا رہی۔
امریکی صدر تیل کی قیمتوں پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان سے بات کرنا چاہتے تھے تاہم دونوں ممالک کے سربراہان نے ان سے بات کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ تاہم امریکہ کی پچھلی ٹرمپ حکومت کے دوران ایسا نہیں تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور تیل پیدا کرنے والے ان ممالک کے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے۔
روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے دنیا کے تمام ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکہ نے ایندھن تیل پیدا کرنے والے بڑے ملک روس پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کی تعریف کی جا رہی ہے لیکن اسے نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ امریکہ تیل پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا کہہ رہا ہے لیکن دونوں ممالک امریکہ کو نظر انداز کررہے ہیں۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے امریکی صدر جو بائیڈن سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کے صدر کے ساتھ ان کی بات چیت بھی جاری ہے۔
بائیڈن دونوں ممالک سے کیا چاہتے ہیں؟
بائیڈن حکومت چاہتی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب روس پر زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباؤ ڈالنے کے لیے فوری طور پر تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں۔ امریکہ میں نومبر میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی امریکی پارلیمنٹ کانگریس پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ایسے میں وہ کسی بھی صورت میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دینا چاہتی۔
لیکن مشرق وسطیٰ کی دونوں بڑی تیل طاقتیں بائیڈن کی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے متعدد بار متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر تیل کی پیداوار بڑھانے کی تاکید کی ہے جسے اب تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
تاہم بدھ کو متحدہ عرب امارات نے امریکہ کو یقین دلایا کہ وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم (OPEC) سے تیل کی پیداوار بڑھانے کی درخواست کرے گا۔ امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے گزشتہ بدھ کو کہا کہ متحدہ عرب امارات پیداوار میں اضافے کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات اوپیک ممالک سے کہے گا کہ وہ تیل کی پیداوار بڑھانے پر غور کریں جس سے اگلے دن تیل کی قیمتوں میں 13 فیصد کمی واقع ہو گی۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس یقین دہانی کے باوجود تیل کی سپلائی بڑھانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور ہفتے کے آخر تک تیل کی فی بیرل قیمت تقریباً 130 ڈالر (تقریباً 10 ہزار روپے) ہوگئی۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ امریکہ کے لیے ایک بڑی پریشانی ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعطل میں کس چیز نے اضافہ کیا؟
ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ٹرمپ حکومت کے دوران حالات قدرے ٹھیک تھے لیکن جو بائیڈن کے آنے سے سعودی امریکہ تعلقات نچلی سطح پر آگئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت کے مبینہ ملوث ہونے، یمن جنگ، انسانی حقوق کے کارکنوں کو جیل بھیجنے وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر خود کو سعودی حکومت سے دور کر لیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یو اے ای کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے۔ متحدہ عرب امارات نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے خود کو الگ کر لیا۔ یو اے ای کے اس فیصلے نے امریکہ کو حیران کر دیا۔
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات-سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعطل بھی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات چاہیں تو تیل کی قیمتیں جلد کم ہوسکتی ہیں
یو اے ای میں قائم کنسلٹنسی قمر انرجی کے سی ای او رابن ملز نے دی گارجین کو بتایا کہ تیل کی پیداوار بڑھا کر تیل کی قیمتوں کو کم کرنا ایک سیدھا سا عمل ہے لیکن سیاست نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی دونوں اوپیک کے سب سے بڑے ممبران میں سے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’وہ ایک ماہ کے اندر سپلائی کو بڑھا سکتے ہیں اور 90 دنوں کے اندر پوری صلاحیت تک پہنچ سکتے ہیں۔‘ لیکن تمام ممالک نے اپنے اپنے طریقے سے اوپیک کے معاہدوں کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ تیل کی پیداوار میں یقیناً تیزی سے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔