کانگریس کے خیر خواہ جو مسلم کمیونٹی میں بھی کثیر تعداد میں ہیں ،مدھیہ پردیش میں اس کے ہارڈ ہندوتو’ کارڈ کے کھیلنے سے خفاخفا سے ہیں ،ان کو شکوہ ہے کہ جب آر ایس ایس اور بجرنگ دل کےخلاف کرناٹک الیکشن میں سخت اسٹینڈ لیا اور کامیابی حاصل کی تو یہاں بجرنگ بلی کا بھکت بننے اور دفتر کو بھگوا رنگ دینے اور زیادہ ہندو پرست دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ،سیکولر چہرے پر بھگوا پینٹ کیوں؟،ہندوتوا پچ پر بولڈ ہونے کا خطرہ کیوں مول لے رہی ہے؟۔سوال میں بڑی معصومیت ،بھولاپن ،سادگی ہے مگر کھیل بالکل کھلا ہے ،
سیکولر ازم کا بوجھ مسلمانوں کے کندھوں پر ہے کیونکہ یہ ان کی ضرورت اور مجبوری و جینے کی بیساکھی ہے،یہ لفظ آئین کی تمہید کے گلوبند میں جڑا ہیرا ہے ،لیکن اسی کے ساتھ سیکولرازم ایک فولڈنگ چئیر ہے جہاں ضرورت ہوئی بچھالی ،جہاں بوجھ لگی سمیٹ کر کونے میں رکھ دی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کرناٹک میں مسلم آبادی 13فیصد ہے وہاں سیکولرازم بھی ایک مہرہ تھا ،اس کوسیاسی بساط پر چلا اور فائدہ ہوگیا ،سرکار بن گئی۔کرناٹک سے مدھیہ پردیش آتے آتے سیکولر کانگریس ہندو ہوگئی کیونکہ یہاں مسلم آبادی صرف 6.5فیصد ہے۔وہاں جنتادل ایس ایک متبادل تھی یہاں کوئی دوجا نہیں،کہاں جاؤگے چھٹک کر ‘میاں جی’
تو صاحبو ملک نظریاتی لڑائی کے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے جو سمجھتے ہیں کہ نفرتی چنثو مٹھی بھر ہیں وہ یہ غلط فہمی دل سے نکال دیں مٹھی بھر سے سرکاریں نہیں بن جاتیں ۔کانگریس یا دیگر پارٹیاں اس سے زیادہ برہنہ ہوں گی تو بھی ہم، آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ سیکولرازم ہمارے لیے مجبوری اور ان کے لیے فولڈنگ چئیر ہے۔سیاست کی دھری اسی پر گھومے گی جب تک کوئی متبادل نہ ہو ۔صرف ۔ہندو ووٹوں سے سرکار بن سکتی ہے یہ بیانیہ ‘بادشاہ گر’کے بھرم کو توڑگیا۔