تحریر : مسعود جاوید
لبرلز کی نظر میں افغانستان میں نئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونے والی تحریک کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے اعلان کیا ہے کہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آزادی نسواں یقینی بنائی جائے گی۔
امریکہ اور ط البان کے درمیان جو معاہدہ ہوا شریعت کے دائرے میں آزادی نسواں اس کا جزء ہے۔ اس معاہدہ میں اس کا بھی عہد کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد سرگرمیوں کے لئے یا کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ غیر مسلموں کو ان کے مذاہب کی اتباع کی مکمل آزادی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
معاہدہ کے تئیں یہ تحریک کتنا سنجیدہ ہے غالباً یہ بتانے کے لئے اب معاہدہ کے بنود افعانستان میں دیواروں پر لکھے جا رہے ہیں۔
تاہم سیکولر دنیا، لبرل دانشوروں اور مخصوص نظریات کے حامل متعصب میڈیا نے سب سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ناتجربہ کار طلبہ نے سابق میں جو حرکتیں کی تھیں اس کے پیش نظر یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ طالبان کے آنے سے تعلیمی اداروں پر قفل لگ جائیں گے ، خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی ختم ہو جائے گی، طالبان اسپورٹس اور تفریح کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تاہم تجزیہ نگاروں کو یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مذکورہ بالا اعمال و حرکات میں سے بعض کا تعلق بلا شبہ دین سے ہے تو بعض کا افغانی معاشرے میں رائج تقلید و عادات سے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ رسوم و رواج اور تقلید و عادات بھی بہت حد تک مذہب سے متاثر ہوتے ہیں لیکن کسی سماج کے ہر فعل کو شریعت کا نام دینا بھی غلط ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کے برعکس افغانستان غیر ملکی استعمار کے تحت نہیں رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ویسٹرن ڈریس اور مغربی انداز زیست ان میں سرایت نہیں کیا۔اس لئے ان کے لباس ، وضع قطع ، کھانے پینے کی عادات اور شادی بیاہ کے رسوم کو یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہاں ’’متشدد‘‘ اسلامی شریعت مسلط کی جاتی ہے۔
دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے وعدوں اور عہد و پیمان کی تنفیذ کی مکمل طور پر ضمانت نہیں دے سکتی ،لیکن لبرلز افغانستان سے گارنٹی مانگتے ہیں!
قول و فعل میں تضاد ہے یا نہیں اس کا ایک نمونہ تعلیمی سرگرمیوں کو شروع کرنا ہے ۔ اسکول و کالجز کا کھلنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ وہ تعلیم نہیں مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں یہی وجہ ہے کہ ایسے انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی میں انہوں نے مخلوط تعلیم پر بندش لگانے کی بجائے لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ہی کلاس روم میں الگ بیٹھنے اور الگ الگ سیکشن بنانے کے لئے درمیان میں ایک پردہ لٹکا کر تعلیم شروع کرا دی ہے۔
لبرلز جب سیکولرازم کی تعریف و توضیح کرتے ہیں تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تقالید و رسومات پر معترض نہیں ہوتے ہیں لیکن مسلم تقالید و رسومات میں انہیں شدت پسند اسلام نظر آتا ہے۔ سیکولر ترکی اور سوویت یونین میں قرآن و حدیث ، دینی تعلیم، مدارس اور مکاتب دینیہ کو سیکولر مخالف قرار دیتے ہوئے پابندی لگا دی گئی تھی مساجد پر قفل لگا کر ویران کر دیا گیا تھا لیکن ان کا رویہ عیسائی دینی مراکز اور عبادات کے تئیں اتنا سخت نہیں تھا۔ اس کے برعکس امریکہ اور مغربی یورپ میں سیکولرازم کے حقیقی مفہوم ’اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرنے کی آزادی، مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، دوسرے مذاہب کی اہانت کا حق نہیں ہے، ریاست اور حکومت کسی مذہب کے فروغ یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کرے گی یعنی ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا‘ نافذ کر کے مذہبی منافرت کو پنپنے کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی۔
متعصب میڈیا اور لبرلز کا رویہ بتاتا ہے کہ ان کی نظر میں پردہ، حجاب اور دینی تعلیم ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانیوں کے معاشرے میں رائج مرد و زن کا کم سے کم اختلاط، اور پردہ حجاب، افغانی کرتا پائجامہ، داڑھی ، پسماندگی کی علامت ہے ! اور میڈیا کا سارا زور ان مظاہر پر تنقید و تنقیص پر ہے۔ غیر ملکی اثر و نفوذ اور موجودگی سے پاک ، ، مختلف قبائل کی شراکت سے حکومت کی تشکیل کی کوشش، ملک میں امن و امان کے قیام کی کوششیں، مہذب دنیا کے ممالک سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کا عہد اور کوشش متعصب میڈیا کے لئے قابل اعتناء موضوع نہیں ہیں۔
اقوام عالم نے جب فرد کی آزادی کو ایک مقدس حق تسلیم کیا ہے تو لبرلز کیوں چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب رائج ہو؟ کیا کسی مخصوص لباس، مخصوص انداز زیست کا مسلط کرنا فرد کی آزادی کے منافی نہیں ہے؟ عیسائی راہبات کا محجبہ رہنے ہندوستان کی بعض ریاستوں کی غیر مسلم خواتین کا گھونگھٹ نکالنے سے کسی کو پریشانی نہیں ہوتی تو اپنی مرضی سے مسلم خواتین کا حجاب اور مہذب لباس میں اسلامی شدت پسندی کیوں نظر آتی ہے! decent dress code تقریباً ہر معاشرے میں محبوب رہا ہے، تو ہیجان انگیز لباس تعلیم یافتہ ہونے کی سند کیوں مان لی گئی ہے ! تعلیم و ثقافت جب معیار ترقی ہے تو نیم عریاں لباس والوں کو روشن خیال سمجھنا اور مہذب لباس و حجاب والی تعلیم یافتہ خواتین کو ہیچ نظر سے دیکھنا کہاں تک درست ہے ؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)