یٰسین قادری
حد یثِ قد سی ہے :ترجمہ: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔یعنی انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کو پہچاننا،اس پاک ذات کا دیدار اور معرفت حاصل کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسان کو سب پر برتری عطا کی اور اشرف المخلوقات بنایا پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو راہِ معرفت پر استقامت سے چلانے کے لیے انبیا و رسول معبوث فرمائے۔ محسنِ کائنات رحمت اللعالمین جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اپنی آخری کتا ب قرآنِ مجید کا نزول فرمایا جس میں دیدار اور قربِ الٰہی کے بارے میں تمام تر رہنمائی شریعت ، طریقت ، معرفت اور حقیقت کی صورت میں مو جود ہے۔ اس پاک کتا ب کی حقیقت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپؐ کے حقیقی پیروکار مراد اہلِ بیتؓ،صحابہ کرامؓ،اولیا کاملین اور انسانِ کامل (یعنی وہ پاک ذات جو قدمِ محمدیؐ پر ہو) ہی سمجھ سکتے ہیں اور سمجھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآنِ مجید میں تمام ارکانِ اسلام (کلمہ، توحید، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج) کا ذکر ہے اور ان کی حقیقی روح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے حقیقی پیروکاروں یعنی فقراکاملین نے ہی طالبانِ حق کو سمجھائی۔جو کہ صرف اور صرف قرب و دیدارِ الٰہی کا حصول ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف انسان کی باطنی ترقی کے لیے بہت سے مواقع بھی فراہم کیے مثلاً نماز کی ادائیگی بھی دیدار و قربِ الٰہی کا ایک ذریعہ ہے اس لیے نماز کو مومن کی معراج قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح روزہ، زکوٰۃ ،حج اور دیگر نفلی عبادات بھی قربِ الٰہی کا ایک ذریعہ ہیں۔ تمام فرضی عبادات کا وقت مقرر ہے اور ان کی ادائیگی رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وقت مقررہ پر ہی لازم قرار دی گئی ہے جبکہ نفلی عبادات کی ادائیگی کا کو ئی مخصوص وقت نہیں ہوتا طالب دن میں بھی اور رات کے کچھ خاص اوقات میں بھی قربِ الٰہی کے حصول کے لیے انہیں ادا کر سکتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ جو مسلمان بندہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے کسی بھلائی کا بھی سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
رات کی عبادت اس لیے بھی خیرو برکت والی ہوتی ہے کہ اس سے طالب کا تزکیہ نفس ہوتا ہے یعنی وہ دن بھر محنت و مشقت میں مصروف رہ کر جب آرام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے نفس کی نفی کرتے ہوئے اپنے ظاہری بدن کی پرواہ کیے بغیر تمام تر دنیاوی معاملات کو بھول کر صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے اس پاک ذات کے حضور سربسجود ہو جاتا ہے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہے :ترجمہ: بے شک رات کا اٹھنا نفس کو کچلنے کے لیے خوب سخت ہے اور بہت سیدھا کرنے والا ہے۔
یہی وجہ ہے کے اللہ تعالیٰ نے بہت سی راتوں کی عبادات کو اپنے قرب ودیدارکاذریعہ بنایا ہے جیسے پندرہ شعبان المعظم کی رات، رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتیں، عیدالفطر اور عید الاضحی کی راتیں ان تمام کو اللہ تعالیٰ نے نہایت خیرو برکت والا بنایا۔
دیلمی کی روایت ہے کہ اُم المومنین سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ’’ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ان چار راتوں میں اللہ تعالیٰ خیروبرکت کثرت سے عطا فرماتا ہے ۔ عید الاضحی کی رات،عید الفطر کی رات،پندرہ شعبان المعظم کی رات اور رجب المرجب کی پہلی رات۔‘‘(مکاشفۃ القلوب)
ابو امامہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں اگر دعا کی جائے تو وہ ردّ نہیں ہوتی۔ رجب کی پہلی رات،پندرہ شعبان کی رات، جمعہ کی رات اور دو عیدوں کی رات یعنی وہ رات کہ صبح عید ہوتی ہے۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)
مندرجہ بالا بیان کردہ راتوں میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی راتوں یعنی شبِ برأت اور شبِ قدر کو سب سے زیادہ اہمیت و فضیلت حاصل ہے ۔کیونکہ ان راتوں میں نورِ الٰہی کا نزول اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۔فضائلِ شعبان
ماہِ شعبان کی فضیلت کا اندازہ درج ذیل احادیث سے لگایا جاسکتا ہے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :’’رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔‘‘
مزید فرمایا:’’شعبان میرا مہینہ ہے اور گناہوں کو دور کرنے والا ہے ۔شعبان کو دوسرے مہینوں پر ایسے فضیلت و بر تری حاصل ہے جیسے کہ مجھے تمام انبیا علیہم السلام پر ہے۔‘‘
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے شعبان کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرما ئی ہے’’ربّ کریم نے بے شمار فرشتوں میں سے چارکو چنا اور پھرحضرت جبرائیل امین ؑ کوان میں سے فضیلت عطا کی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا اور تین سو تیرہ رسولوں میں سے حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیؑ ٰ، حضرت عیسیؑ ٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوچنا اور اپنے محبوبِ پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فضیلت عطا کی ۔ مساجد میں سے مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی ؐ ، مسجدِ اقصٰی اور مسجدِ سینا کو چنااور مسجد حرام کو ان میں سے ممتاز کر دیا۔ بالکل اسی طرح سال کے چار مہینوں رجب، شعبان وقفہ رمضان اور محرم کو منتخب کر کے شعبان کو ان میں سے فضیلت عطا فرمائی۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
حضرت سیّدنا اُسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں میں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شعبان میں روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی مہینے میں نہیں رکھتے‘‘؟ فرمایا’’ رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینہ ہے، لوگ اس سے غافل ہیں،اس میں لوگوں کے اعما ل اللہ ربّ العالمین عزّوجل کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزے دار ہوں‘‘۔ (سنن نسانی)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معمولاتِ شعبان
اُمتِ محمدیہ میں موجود ہر سچا طالبِ مولیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ مبارکہ کو ہی قرب و دیدارِ الٰہی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور سنت پاک کی ادائیگی میں مشغول رہنا اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معمولاتِ شعبان کو جاننا اور ان پر عمل کرنا ہر صادق طالبِ مولیٰ کے لیے اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کے حصول کا ایک اہم راستہ ہے۔بہت سی روایات میں ہے کہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس ماہِ مبارک میں باقی مہینوں کی نسبت اپنی عبادات، ذکرِ الٰہی، صدقہ و خیرات میں اضافہ کر دیتے تھے۔* حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو متواتردومہینے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے۔‘‘
* حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے’ ’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شعبان المعظم کے روزے بہت محبوب تھے ۔آپؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (کبھی تو) اس قدر روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ افطار نہیں کریں گے(یعنی کبھی روزے نہ چھوڑیں گے)اور کبھی اس قدر طویل افطار کرتے (یعنی روزے نہ رکھتے)کہ ہم سمجھتے کہ اب روزے نہیں رکھیں گے (یعنی ایک انداز مقرر اور لازم نہیں کرتے تھے)۔البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے۔‘‘ (مکاشفتہ القلوب)
* حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ’’میں نے جناب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کورمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے نہیں رکھتے دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا ۔‘‘
یعنی جناب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ شعبان المعظم کے مہینے میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
شبِ برأت:
ماہِ شعبان تمام تر خیرو برکت والا ہے لیکن ۱۵ شعبا ن المعظم کو اللہ تعالیٰ اپنے دیدار و انوار کی تجلیات کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے ۔لُغت میں ’برأت‘ کے معنی ’بری ہونے یا نجات پانے ‘کے ہیں۔یعنی اس شب اللہ تعالیٰ بیشمار بخشش طلب کرنے والوں کی اپنی رحمت سے مغفرت فرما کر انہیں دوزخ اور نفس کی قید سے آزادی عطا جاتا ہے یعنی اس رات خلوصِ دل سے دیدارِ الٰہی کی نیت سے جتنی بھی عبادت کی جائے گی اللہ تعالیٰ اس رات کی برکت سے طالب کے قلب کا تزکیہ فرما کراسے تمام نفسانی و شیطانی خواہشات سے آزاد فرما دے گا اور اپنے قرب و دیدار کی نعمت سے ضرور نوازے گااور جو لوگ نفسانی و دنیا وی خواہشات سے نجات پا کر قربِ الٰہی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں لیکن کسی نہ کسی مقام پر اپنے حجاب کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اگر وہ اس رات کو صحیح معنوں میں یعنی خلوصِ نیت، عشقِ الٰہی اور طلبِ حق کی غرض سے بسر کرے تو ان کا روحانی سفر پھر سے ترقی کی طرف شروع ہو جائے گا ۔الغرض یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ اگر طالب صدق اور خلوصِ نیت سے اس رات عبادات ومجاہدات میں مشغول رہے تو اس رات کی برکت اور مرشد کامل اکمل کی رہنمائی سے وہ ضرور اپنے روحانی سفر میں ترقی کرے گا۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: ’’بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس(رات ) میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے حکم سے ۔ بیشک ہم بھیجنے والے ہیں (اس رات میں )تمہارے ربّ کی طرف سے رحمت۔ بیشک وہ (تمہاری التجا ؤں کو) سنتا اور (تمہاری نیتوں اور طلبوں کو ) جانتا ہے۔‘‘ (الدخان۔3-6)
*امام احمد ؒ نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے ۔ شرک و کینہ پرور بندوں کے علاوہ تمام زمین والوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘*حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں’’جب شعبان کی پندرہویں شب آجائے تو اس رات کو قیام کرو،دن میں روزہ رکھو کہ ربّ تعالیٰ غروبِ آفتاب سے آسمانِ دنیاپر خاص تجلی فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والاکہ اسے بخش دوں،ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں،ہے کوئی ایسا،ہے کوئی ایسااور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
*ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میرے پاس جبرائیل امین ؑ آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اس رات اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرما دیتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافر اور عداوت رکھنے والے اور رشتہ ختم کرنے والے اور کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کی مداومت کرنے والے کی طرف اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔‘‘ (بیہقی)
* حضرت عطار بن یسارؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جب پندرہ شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال یعنی شعبان سے شعبان تک موت و حیات کے امور نفاذ کے لیے سپرد فرما دیتا ہے۔‘‘ll