تحریر:دھارو ی وید
شاہ رخ خان کو دنیا بھر میں ایک ایسے ثقافتی رجحان کے طور پر جانا جاتا ہے، جو سرحدوں کا پابند نہیں۔ لیکن وہ ایک مسلمان ہے اور اس کا مذہب بھارت میں کسی حد تک ایک مسئلہ بن چکا ہے، جہاں مسلم مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔
خان کی تازہ ترین فلم ”جوان‘‘ نے بھارت میں سیاسی زلزلہ برپا کر دیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس فلم میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے متعلق باریک حوالہ جات ہیں اور اس میں موجودہ حکومت کے دور میں پیدا ہوئے کئی ان تنازعات کو چھیڑا گیا ہے۔
2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال بعد اس بالی ووڈ سپر اسٹار نے عوامی طور پر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف "بڑھتی ہوئی عدم برداشت” کے بارے میں بات کی۔
ہندو قوم پرستوں کے نشانے پر
تب سے اب تک شاہ رخ خان کو بہت سے من گھڑت الزامات اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہندو قوم پرست سیاست دان اور بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بالی ووڈ اسٹار کا موازنہ ایک پاکستانی عسکریت پسند سے کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان کے حریف پڑوسی ملک پاکستان چلے جائیں۔
2021 میں خان کے بیٹے آریان کو منشیات کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں انہیں بری کر دیا گیا۔ اگرچہ خان نے اس آزمائش کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری کے سیاسی محرکات تھے۔
کچھ مبصرین کے خیال میں اپنے ملک کا ایک سیکولر تشخص پیش کرنے اور اسے فروغ دینے والے بالی ووڈ کے اس آئیکوں کے ساتھ امتیازی سلوک، اقلیتوں کے لوگوں کو”دوسرے درجے کے شہری‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے ایک بڑے ہندو قوم پرست منصوبے کا حصہ ہے۔ بی جے پی اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
خان نے عدم برداشت کے بارے میں کوئی حالیہ عوامی بیان نہیں دیا ہے لیکن ان کی تازہ ترین ایکشن سے بھرپور فلمیں، ”پٹھان‘‘ اور ”جوان‘‘ ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہیں۔ دونوں ہی باکس آفس پر شاندار کامیاب رہیں اور دونوں ہی میں ایک سیاسی تبصرہ نگاری ہے۔
خان بے حد مقبول ہیں اور ان کی فلمیں فلم تھیٹروں کے اندر اور باہر مداحوں کی لمبی قطاروں کا سبب بنتی ہیں۔ یہ اس قسم کی مقبولیت ہے جو بی جے پی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کے حصول کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دائیں بازو کے کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بالی ووڈ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایک معروف بھارتی اخبار کے ساتھ منسلک ایک رپورٹر کے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خان ہمیشہ ترقی پسند اقدار کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔
اس صحافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان (خان) کی ذاتی زندگی ‘ہندوستان کے نظریے’ کی آئینہ دار ہے، خاص طور پرعالمی سامعین کے لیے، ایک ہندو اکثریتی ملک میں ایک مسلمان شناخت رکھتے ہوئے انہوں نے ایک ہندو بیوی سے شادی کی ہے لیکن ان کے بچے بڑے ہو کر جو چاہیں وہ مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘
خان کا مذہب اتنا اہم کیوں؟
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سنیما اسٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر رنجانی مزومدار سوال کرتی ہیں، ”کیا ان (خان) کے مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں،”اقلیتوں پر حملے کی وجہ سے اب یہ اہمیت رکھتا ہے اور اس لحاظ سے ان کی مسلسل مقبولیت اس بات کا اظہار ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے، جو زہر روزانہ گھولا جا رہا ہے، اس کے باوجود ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ خان نے حقیقت میں کبھی بھی عوامی سطح پر کسی کو اپنے مذہب کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بھارت میں خان کی مقبولیت نے مداحوں کی اس ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا، جن میں سے کوئی بھی مذہب کو اپنے لیے اہم تصور نہیں کرتا۔
خان کے بیٹے کو حراست میں لیے جانے کے بعد معروف بھارتی صحافی رانا ایوب نے ایک مضمون لکھا، جس نے بڑے پیمانے پر یہ بحث چھیڑی کہ آیا ان کی گرفتاری ان کےبھارت کے سب سے بڑے مسلم سپر اسٹارز میں سے ایک کے بیٹے ہونے کا نتیجہ ہے۔ ایک ایسا سپر اسٹار، جس نے کبھی اپنی مذہبی شناخت سے پیچھے نہیں ہٹے۔
انہوں نے کہا کہ شاہ رخ خان کی فلمیں ”اسلامو فوبک‘‘ فلموں کے ایک بیراج کے درمیان مسلم مخالف تعصب کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ایوب نے مشورہ دیا کہ خان بھارت میں ایک مسلمان ہونے کو ایک معمول کی بات ثابت کرتے ہیں اور اپنی نئی فلم ”جوان‘‘ میں انہوں نے باریک بینی سے ”فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف پیغام پیش کرنے کی کوشش کی۔‘‘
ایوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہاں، وہ(خان) ایک خطرہ ہے کیونکہ بالی ووڈ بہت بڑا ہے، اور موجودہ حکومت اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘‘
(بشکریہ ڈی ڈبلیو ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)