تحریر: شکیل رشید
کنگنا رنوت اپنے ’بیان‘ پر اڑی ہوئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اس کے بیان کو غلط ثابت کردے تو وہ ’پدم شری‘ کا ایوارڈ لوٹا دے گی۔ اسے ہی ’بے شرمی‘ کہا جاتا ہے۔ اس کےلیے ایک اور لفظ ’ڈھیٹ‘ بھی لغت میں ملتا ہے۔ کیا اس سچ کو کہ1974 ءمیں ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا، ثابت کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ کیا یہ ایک ثابت شدہ سچ نہیں ہے؟ کیا ملکی اور غیر ملکی کتابیں 15 اگست 1947 ءکے بھارت کو ملنے والی آزادی کے تذکرے سے بھری ہوئی نہیں ہیں؟ کیا کہیں تاریخ کی کسی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انگریزوں نے بھارت کو آزاد نہیں کیا تھابلکہ اسے بھارتیوں کو بھیک میں سونپا تھا؟ اور کیا واقعی وہ سب بھارتی جنہوں نے انگریزوں کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا ’بھیک منگے‘ تھے، مجاہد آزادی نہیں تھے؟ کنگنا کو تو ان سوالوں کا جواب دیناچاہئے اور وہ ہے کہ خود دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے بیان کو کوئی غلط ثابت کردے تو وہ ’پدم شری‘ واپس کردے گی!
اگر کنگنا رنوت کی مانی جائے تو مہاتما گاندھی، غیر ملکی دوروں میں جن کا نام لیے بغیر وزیر اعظم نریندر مودی کا کھانا ہضم نہیں ہوتا ’بھیک منگے‘ تھے۔ ویسے ان کی تصویر دیکھ کر شاید کنگنا کو ایسا کچھ مغالطہ ہوا بھی ہو، چرچل بھی باپو کو ’ننگا فقیر‘ کہتے تھے۔ مگر کنگنا رنائوت اور چرچل میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اب کوئی یہ سوال نہ کرے کہ زمین کون اور آسمان کون ہے؟ خیر، اگر کنگنا کی بات مانی جائے تو وہ جھانسی کی رانی بھی، جن کا کردار خود کنگنا نے اپنی ایک فلاپ فلم میں نبھایا تھا، مجاہد آزادی نہیں تھیں، ’بھیک منگی‘ تھیں۔
کنگنا کی بات ماننے پر لمبی چوڑی فہرست تیار کرنا پڑے گی، پوری کتاب بن جائے گی، بہت سارے نام آئیں گے۔ پنڈت نہرو کا نام نہیں لوں گا، کیوںکہ بی جے پی ، جس کی کنگنا کٹھ پتلی ہے، پنڈت جی کو ’ملک دشمن‘ سمجھتی ہے۔ بھلے ہی پنڈت جی نے آزادی کی پکار لگاتے ہوئے جیل میں لمبے دن کاٹے ہوں، لاٹھیاں کھائی ہوں۔ کم از کم اتنا توہے کہ انہوں نے اور دیگر ’مجاہدین‘ نے ۔جی ہاں وہ ہمارے لیے مجاہدین ہی ہیں۔ سنگھ اور بی جے پی کے ’ہیرو‘ ساورکر کی طرح انگریزوں سے یہ بھیک تو نہیں مانگی تھی کہ ان کی عمر قید کی سزا معاف کردی جائے اور انہیں بھتہ دیاجائے۔ کنگنا کا ماننا ہے کہ آزادی 2014ء کے بعد ملی ہے۔ یعنی جب نریندر مودی کا راج شروع ہوا ہے۔
کیا واقعی؟ ہاں، بات کچھ سچ لگتی ہے کہ اس سال سے اس ملک میں شرپسندوں کو، ہندو تو وادیوں کو، زہریلے انسانوں کو، بھگوائیوں کو مکمل آزادی ملی ہے کہ وہ گائے اور لوجہاد کے نام پر ، تبدیلی مذہب اور مندر ومسجد کے نام پر جب چاہیں اور جہاں چاہیں اقلیتی فرقے بالخصوص مسلم فرقے کے کسی بھی فرد کی جان لے سکتے ہیں۔ لیکن شاید اس معاملے میںبھی کنگنا رنائوت کا مطالعہ تاریخ کچھ کمزور ہے، یہ آزادی تو 2002 ءگجرات فسادات سے ہی مل گئی تھی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)