تحریر: شکیل انور
بنگلہ دیش میں دُرگا پوجا کے دوران ہندو برادری کے مندر پر حملے کے دو روز بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ واقعے پر مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں گی اور ملک کی ہندو برادری کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ شیخ حسینہ کی حکومت مسلسل ملک میں ہندو برادری کی سکیورٹی پر بات کر رہی ہے لیکن بدھ کو جس طرح وزیراعظم نے ہندوؤں کی سکیورٹی کو بھارت کی قیادت سے جوڑا، یہ پہلے نہیں دیکھا گیا۔
شیخ حسینہ نے بھارت کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اسے شرپسندوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارت میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کو متاثر کرے اور ہمارے ملک میں ہندوؤں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
’اگر بھارت میں ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں ہندو متاثر ہوتے ہیں۔بھارت کو بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘
بی بی سی بنگالی سروس سے بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے سابق سیکریٹری خارجہ توحید حسین نے کہا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کی اعلیٰ قیادت نے بھارت کے اندرونی معاملات پر اس طرح کھل کر بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر ہم انڈیا کو ایسا واضح پیغام نہیں دیا کرتے، حالانکہ اس پر بات ضرور ہوتی ہے۔ جببھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کے سب سے طاقتور شخص نے بنگلہ دیش کے بارے میں غلط زبان استعمال کی تھی تب بھی ہم نے اس طرح کھل کر بات نہیں کی تھی۔‘
بھارت میں سنہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل امت شاہ نے بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آنے والے پناہ گزینوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کی تھی۔ اس پر بنگلہ دیش میں کافی مظاہرے کیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش کی حکومت نے کھل کر کوئی بات نہیں کی تھی۔ شیخ حسینہ نے جو کچھ بھی بدھ کو کہا ہے، اس پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ شیخ حسینہ بھارت کو آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہیں۔ توحید حسین کہتے ہیں کہ ’پیغام واضح ہے۔ بنگلہ دیش نے بھارت میں نسل پرستی پر مبنی واقعات پر ردعمل دیا ہے۔ ’شیخ حسینہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کا بیان بالکل درست ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ سنہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام پر کیا ہوا تھا۔‘
سنہ 2014 میں انڈیا میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد سے بھارت میں سیکولرزم کے مستقبل پر مسلسل بحث جاری ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں کہ کسی برادری میں کچھ افراد کو مذہبی مقاصد کے لیے قتل کیا گیا تھا۔ انڈین حکومت پر بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ قدامت پسند ہندوتوا کے حامیوں کو فروغ دیتی ہے۔ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں مبصرین سمجھتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حکومت ہمسایہ ملک انڈیا میں مسلمان مخالف سیاست اور بنگلہ دیش پر اس کے اثرات سے پریشان ہے۔
عوامی لیگ خود کو ایک سیکولر جماعت بتاتی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور سیاست میں مذہب کی بنیادوں کو مضبوط ہونے نہ دیا جائے۔ گذشتہ سال کم از کم دو بنگلہ دیشی وزرا کے بھارت کے دورے منسوخ کیے گئے تھے۔ یہ تب ہوا تھا جب بھارت میں متنازع سول ترمیمی ایکٹ نافذ کر دیا گیا تھا۔
توحید حسین کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی لیگ کی حکومت بھارت میں نسل پرستی پر مبنی سیاست کے پھیلاؤ سے پریشان ہے۔ یہ قدرتی ہے کہ اگر (بھارت جیسے) بڑے ہمسایہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی بڑھتی ہے تو اس سے بنگلہ دیش پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ انڈیا کا سیکولر ڈھانچہ کمزور ہوا ہے۔‘
توحید سفارتی کام کے لیے نو سال تک بھارت میں رہائش پذیر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ بنگلہ دیش میں صورتحال بہترین ہے۔ یہاں بھی نسل پرستی پر مبنی سیاست ہوتی ہے۔ یہاں بھی موقع پرست لوگ موجود ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں صورتحال بدتر ہو چکی ہے۔
’بی جے پی کی حکومت نے قانون کی مدد سے ملک میں نسلی تفریق قائم کر دی ہے۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ طویل عرصے کے بعد انڈیا میں ایک جماعت کھلے عام نسل پرستی پر مبنی سیاست ابھار رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انڈیا کے معاشرے میں نسلی امتیاز اپنی جگہ بنا رہا ہے۔‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں جنوبی ایشیا کی سیاست کے پروفیسر سنجے بھردواج شیخ حسینہ کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کی سیاست کا بنگلہ دیش پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں مذہب، ذات، علاقے یا نسل پر مبنی سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ بھارت میں نسل پرستی پر مبنی سیاست سے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
بھردواج کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کے آئین میں اسلام ریاست کا مذہب ہے لیکن شیخ حسینہ نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا ہے۔ بھارت میں اکثریت پسندی کی سیاست نے اس کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کی زندگیاں متاثر کی ہیں۔‘ ’لیکن انڈیا کی جمہوریت اب بھی مضبوط ہے اور انڈیا اب تک ہندو قوم نہیں بنا۔ میرا نہیں خیال کہ نریندر مودی کے سات سالہ دور میں مسلمانوں کو کسی بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
سنجے بھردواج نے کہا ہے کہ بھارت کی حکومت کو شیخ حسینہ کے پیغام میں مثبت پہلو تلاش کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر بھارت چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہو تو اسے اپنے ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت یہ بات سمجھ سکتی ہے۔‘
بنگلہ دیش کے سابق سیکریٹری خارجہ توحید حسین سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت شیخ حسینہ کے بیان کو اتنی اہمیت نہیں دے گی۔ ’بی جے پی کا ایجنڈا واضح ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نسل پرستی پر مبنی سیاست طاقت کے لیے کی جاتی ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل بی جے پی نے بھارت میں معاشی ترقی کا وعدہ کیا تھا۔
’گجرات ماڈل کی بہت بات کی جاتی تھی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ میرا نہیں خیال کہ بی جے پی نے معیشت کے محاذ پر کچھ کیا ہے۔ اس صورتحال میں مذہب ان کی سیاست کا واحد ہتھیار ہے۔‘ توحید سمجھتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے بھارت کی طرف انگلی اٹھا کر اپنے ملک میں سیاسی حمایت حاصل کی ہے۔ ’(ورنہ) شیخ حسینہ کی شخصیت ایسی رہی ہے کہ وہ انڈیا کے معاملے پر خاموش رہتی ہیں۔‘
(بشکریہ : بی بی سی )