عبدالسلام عاصم
مذہبی احکامات، صحائف اور شخصیات سے عدم اتفاق کو جارحانہ شکل دینے کا کبھی خوشگوار نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ باوجودیکہ یہ سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر جاری رہتا ہے۔ اس کے بعض اوقات سنگین نتائج بھی مرتب ہوتے ہیں لیکن عمل اور ردعمل کو راہ دینے والے متعلقین اس حوالے سے اظہار خیال کو کم سے کم انسانی اقدار کا پابند بنانے کے رخ پر کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جو اتفاق کو جامد رہنے سے بچالے اور اختلاف کو تفہیم کے رخ پر متحرک رکھے۔
غیر سائنسی باتوں پر اعتراض کرنے والے جہاں ممکنہ نتیجے کی پرواہ کئے بغیر دوٹوک اظہار خیال کو کمال سمجھتے ہیں، وہیں ردعمل کے محاذ پرکچھ لوگ صلواتوں کے ساتھ وہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ تشدد کا خطرہ انتہا کو چھونے لگتا ہے۔ ایسے میں سرکاری انتظامیہ پر حالات کو قابو میں رکھنے کا جو غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے، وہ ان سے بھی بعض ایسی غلطیاں کرا دیتا ہے جن کے دور رس نتائج مرتب ہونے لگتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بر صغیر میں ایسے دو تین واقعات سامنے آئے ہیں جن سے انتہائی عالمانہ، قائدانہ اور حکیمانہ طور پر رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن روز افزوں جو منظرنامہ مرتب ہوتا چلا جارہا ہے وہ برقی اور غیر برقی اخبارات و رسائل جارحانہ ردعمل اور اس ردعمل کو کیش کرنے والے عناصر کی تاجرانہ شرارتوں سے بھر گیاہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ بس کسی بھی وقت بگل بجنے والا ہے اور خاک و خون میں لت پت انسانی زندگیوں کا انبار لگ جائے گا۔ مذہبی صحائف پر اعتراض، پیغمبروں کی شان میں گستاخی اور خدا کے گم ہونے کے اعلان سے متعلق ناول کے سامنے آجانے سے حالات مکدر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک طرف جہاں بدلے ہوئے ماحول میں اظہار کی آزادی کا متجاوز استعمال ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب اس کا نوٹس وہ عناصر زیادہ لے رہے ہیں جنہیں بس سیاسی، سماجی اور صحافتی دکانداری سے غرض ہے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی تحریروں کی وقتی واہ واہی جذباتی سطح پر ملک و قوم کو کس خسارے سے دوچار کر سکتی ہے۔ ممکن وہ اُسے بھی کیش کرنے کی سوچے بیٹھے ہوں۔
ہونا یہ چاہئے کہ تحریر و تقریر سے پراگندہ ایسے ماحول میں سرکاری انتظامیہ کے وہ شعبے حرکت میں آئیں اور معاملات کو کہیں ختم تو کہیں فیصل کر کے دونوں حلقوں کو ان کی حدوں کا پاس رکھنے کی سخت تلقین کریں جو اس نوع کی ذیلی شعبہ جاتی ذمہ داریاں رکھتے ہوں۔ماضی میں جب نذہبی جزبات کو منفی رُخ پر کیش کرنے کا رجحان شروع ہوا تھا تو انتظامیہ کے بعض حلقے پیش بندی سے کام لینے کے ساتھ مبارزت پسند حلقوں کی حکمت پسندانہ گرفت کرتے تھے۔
عدم برداشت کے جس مرحلے سے اہلِ ادیان اور مبنی بر عقائد مذہبی پابندیوں کو نہ ماننے والے گزر رہے ہیں وہ کسی بھی طرح معاشرے خاص طور ہر نئی نسل کیلئے سود مند نہیں۔ بالفرض آج کے عہد کے قلمکار، شاعر یا مفکرکی حیثیت سے علامہ اقبال زندہ ہوتے تو انہیں ایک طرف نہ صرف اپنے بعض اشعار سے توبہ کرنا ہوتا بلکہ اس افسوس کی سولی پر وہ از خود لٹک کر رہ جاتے کہ کاش کچھ اس طرح کے مصرعے نہ کہے ہوتے جن کی بہ انداز دیگر گرفت دوسروں کو اس حد تک تکلیف پہنچارہی ہے کہ وہ جارحانہ ردعمل پر اتر آئے ہیں۔ اقبال کی دور اندیشی نے جہاں انہیں یہ کہنے پر مجبور کیا تھاکہ :
اپنوں سے بیر رکھنا تُو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
وہیں ان کی فکری کجی انہیں یاس طرح کے سویپنگ موازنے سے نہیں روک سکی کہ:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اِن دونوں ہی اشعار کو سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھنے والے وہی مفہوم نکالیں گے جو آج ادب کو ادب کے پیرائے سے باہر سمجھنے کے یکطرفہ ذہن کی وجہ سے نکالا جارہا ہے ۔ اس کا ایک سبب وہ جہل بھی ہے جسے عقیدے کی آڑ میں پھیلایا گیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ فیض احمد فیض کی اس انقلابی سوچ کو کہ ’’ہم دیکھیں گے۔۔۔‘‘ مذہب کی عینک سے دیکھا جانے لگا اور ہندستانی شہریت سے متعلق ایک قانونی ترمیم پر شبہہ کے اظہار اور عدم اتفاق کی جمہوری سوچ کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔
ادب کی دنیا سے لوگوں کا کل بھی تعلق تھا اور آج بھی ہے۔ ادب راست اور بالواسطہ اظہار کا وہ ذریعہ ہے جس میں ایک ادیب کسی بھی نظریہ کو مسترد کرنے یا اس میں ترمیم کی راہ دکھانے کا حق رکھتا ہے۔ اقبال، غالب، اکبر الہٰ آبادی، فیض، سردار، ساحر اور دوسروں نے اس کا خاطر خواہ حق ادا کیا ہے لیکن کبھی اُن کی کسی تحریر نے کسی کو تشدد پر نہیں اُکسایا۔ شکوہ جواب شکوہ کو لوگوں نے ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا۔
شیخ کو نشانہ بنانے والی شاعری سے از مولانا مودودی تا مولانا وحیدالدین خاں سبھی محظوظ ہوتے آئے ہیں۔ قرآنی آیات سے صحیح اور غلط مفہوم اخذ کرنے پر علمی بحث کا ایک عہد گزرا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ اٹھا لئے گئے یا ان کی موت ہوئی اس پر اختلافی بحث کا دور ابھی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک عالمانہ اختلاف اور اتفاق کا موضوع تھا۔ عقائد کا تعلق جاننے سے ہرگز نہیں ، یہ ماننے اور نہ ماننے کی چیزیں ہیں۔ ان پر کوئی بھی اختلاف دنیا کی کسی عدالت میں فیصل نہیں ہو سکتا۔ باوجودیکہ اگر کوئی عدالت ایسے مقدمات کی سماعت کرتی ہے اور فیصلہ سناتی ہے تو اِس کا مقصد کسی کی ناراضگی کی قیمت پر کسی کو خوش کرنا تو ہو سکتا ہے، انصاف ہرگز نہیں۔
اختلافات سے نفرت کشید کرنے کا سلسلہ ذوقطبی دنیا کے یک قطبی ہونے کی محاذ آرائی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور مذہبی انتہا پسندی کو ایک سے زیادہ حلقوں کی طرف سے بڑھاوا دینے کی تاریخ سے آگاہ ہیں ان کے لئے موجودہ تشویشناک منظر نامے کو سمجھنا دشوار نہیں۔ ہمارے ایک دوست برقی میڈیا پر ا س طرح کی بحث کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’زندگی تو ہمیں ایک خالی برتن کی طرح ملتی ہے جس میں سماج بہت سا رطب و یابس ہماری مرضی کے بغیر ہی بھردیتا ہے جس سے یہ برتن اکثر اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ بندے کی سانس پھول جاتی ہے۔ سو ضروری ہے کہ تفکر کو کام میں لاتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ اس برتن سے کیا کیا نکالنا ضروری ہے اور اس میں ایسا کیا داخل کیا جائے کہ بے معنی اور لغو زندگی بامعنی ہوجائے‘‘۔
تقسیم شدہ ہندستان اور باقیماندہ پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش میں انتہا پسندی پر رواں صدی کے پہلے عشرے تک بہت حد تک قابو پالیا گیا تھا ، لیکن یہ تبدیلی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی ۔ 2013 میں وہاں ایک بلاگر رجب حیدر کی موت کے بعد ایک درجن سے زائد مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک جماعت وجود میں آئی جو طاقت کے بل پر بنگلہ دیش کو مذہبی طریقے سے بدلنا چاہتی ہے۔ خبروں کے مطابق بنگلہ دیش کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے لئے یہ جماعت اساتذہ اور طلبامہیا کرتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے خلاف بھی مبینہ طور پر اسی جماعت کی جانب سے پُر تشددد مظاہرے کئے گئے تھے جن میں انسانی جانوں کا زیاں بھی ہوا۔ وطن عزیز ہندستان میں بھی سب خیریت نہیں ۔ دہلی میں فساد ہرگز برپا نہ ہوتا اگر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا جذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔
مذہبی عقائد اور سائنسی علم کے مابین توازن کی سخت ضرورت ہے ۔ اب تک جو توازن برقرار ہے اس میں اِن دونوں میں سے کس کا کردار زیادہ ہے، اس پر دوٹوک اظہار بھی جھگڑا کھڑا کر سکتا ہے ۔ اِس لئے اِس سے قطع نظر ہمیں بنیادی اہمیت اُس زندگی کو دینا چاہئے جسے ہم سب جی رہے ہیں ۔ اُس زندگی کو بہتر بنانے کی واحد صورت یہ ہے کہ اُن انسانی وسائل کو فروغ دیا جائے اور اُن سے بہتر استفادہ کیا جائے جو کسی آسمان سے نہیں اترے بلکہ ابن آدم کی تخلیقی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اس بحث میں پڑنے کے بجائے کہ ہم کیسے وجود میں آئے اور مرنے کے بعدہمیں کہاں جانا ہے ، ہمیں ایک اچھی زندگی گزارنے کو اہمیت دینی چاہئے ۔مذہبی اعتبار سے بھی اس سوچ پر عمل اُسی وقت ممکن ہے جب ہم یہ مان لیں کہ یہ فانی دنیا ہی بساطِ آخرت ہے۔