دوٹوک :قاسم سید
مسلمانوں کے سب سے موثر ،موقر ،معتبر مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لا بورڈ اب تک کے سخت ترین چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے ـ اسے بیک وقت کم سے کم دو محاذوں پر لڑنا ہے ،کامن سول کوڈ اور وقف ترمیمی بل اور یہ بھی سچ ہے بورڈ کی یہ اب تک کی نسبتا معصوم قیادت ہے جو وقتا فوقتاً ‘علمی اعتکاف’ میں رہتی ہے وہ کتابی زیادہ ہے عملی طور پر تحریکیں چلانا اور ان کو سنبھال کر رکھنا،خالص عوام سے براہ راست رابطہ شاید اس کے لیے تجرباتی مرحلہ ہےـ کیونکہ ان کا عوام سے رابطہ عام طور پر جلسوں یا دیگر خطابات کے ذریعے ہی ہوتا ہے ،جتنے بھی محترم دامت برکاتہم ہیں وہ اپنے مقام بلندوبالا کے سبب عام لوگوں کی دسترس سے دور ہوتے ہیں
بہرحال 13جنوری کو پارلیمنٹ میں بل پیش ہوا اس سے ایک دن قبل بورڈ کی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ نئی دہلی کے اسلامک سینٹر میں ہوئی اور اس کے دوسرے دن جب پارلیمنٹ میں جے پی سی رپورٹ پیش ہوئی،بورڈ نے پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کی ،جو واضح ،غیر مبہم اور دوٹوک متحدہ یغام دینے میں ناکام رہی ـ کانفرنس میں مکمل نمائندگی نہیں تھی ،جمعیتہ اہل حدیث،اور مولانا محمود مدنی کی زیر قیادت جمعیت علمائے ہند کا کوئی نمائندہ نہیں تھا، ـالبتہ صدر جمعیتہ حضرت مولانا ارشد مدنی اور جماعت اسلامی ہند کی طرف سے نائب امیرِ ملک معتصم خاں کے علاوہ صدر بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنرل سیکریٹری مولانا مجددی کے ساتھ بورڈ کے نائب صدر مولانا عبیداللہ اعظمی اور ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس موجود تھے
وہاں حاضر جرنلسٹوں نے محسوس کیا کہ پریس کانفرنس کی باڈی لینگویج میں تازگی، اشتراک کی روح اور یکجہتی کا اظہار غائب تھا – ایسا لگتا تھا کہ سب کے اپنے ثحفظات ہیں ـ مثلا مولانا رحمانی نے وقف بل منظور ہونے کی صورت میں ملک گیر تحریک چلانے اور اپنی بات عوام تک پہنچانے،اور سرکار کو قدم واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے تمام جمہوری،قانونی ذرائع استعمال کرنے کا اعلان کیا اس دوران مولانا ارشد مدنی سر جھکائے بیٹھے رہے،اانہوں نے بہت ہی مختصر انداز میں اپنی بات رکھی اور یوسی سی ہر جمعیتہ نے کیا کیا قدم اٹھایا ہے اور جمعیتہ آگے کیا کرے گی اس کے بارے میں ہی بتایا ـ حضرت دامت برکاتہم نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وہ وقف اور یو سی سی معاملہ میں بورڈ کے ہر اقدام کے ساتھ ہیں ـ,ان کا شروع سے موقف رہا ہے کہ ان کی زیر قیادت جمعیت سڑکوں پر نہیں اترے گی،کوئی تحریک چلانے کے خلاف ہے وہ صرف عدالتی چارہ جوئی پر یقین رکھتی ہے -ان کو لگتا ہے کہ ہمیں عدالتوں سے ہی انصاف مل سکتا ہے ـ این آرسی معاملہ میں بھی وہ اسی موقف پر قائم رہے اور اب بھی عاملہ کی میٹنگ میں جب کچھ ممبران نے شدت کے ساتھ جن آندولن کی حمایت میں اپنی بات رکھی تو مولانا ارشد مدنی نے اس کی سخت مخالفت کی اور اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ـگرچہ ماضی میں متحدہ جمعیتہ کی طرف سے اندرا گاندھی کی گرفتاری کے خلاف جیل بھرو آندولن اور ملک و ملت بچاؤ تحریکوں میں سڑکوں پر اترنے،احتجاج کرنے اور جیل بھروآندولن کا ریکارڈ رہا ہے مگر موجودہ قیادت بعض مصالح کے تحت اس کو بھارت کے بدلتے منظرنامے میں مناسب نہیں سمجھتی ،بتایا جاتا ہے کہ مولانا محمود مدنی کی زیر قیادت جمعیت کو تحریک چلانے سے اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اس کا قطعی فیصلہ وہی لیں گے جو دہلی سے باہر ہونے کی وجہ سے عاملہ کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوسکے اور ان کی نمائندگی مولانا حکیم الدین قاسمی نے کی یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مرکزی قیادت نے تحریک چلانے کا اعلان تو کردیا ہے مگر وہ خود بھی تذبذب کا شکار ہے ،اس کو لگتا ہے کہ وہ تحریک سنبھال نہیں پائے گی،کہیں حالات ہاتھ سے تو نہیں نکل جائیں گے؟ ،اور سرکار کا کیا رویہ ہوگا؟اندولن کے خدو خال کیا ہوں ؟کیا این آر سی کی طرز پر چلائی جایے یا کوئی اور تجربہ کیا جائے؟،اس کے لیے انہیں بھی قربانی دینی ہوگی؟ ایسے ڈھیر سارے سوال ہیں این آر سی تحریک کے روح رواں کئی نوجوان لیڈر مدتوں سے جیل میں ہیں، وہیں ہمارے معزز رہنماؤں پر آج تک الحمد للّٰہ ثم الحمداللہ ایک کھرونچ تک نہیں آئی ـ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر آزمائش و بلا سے محفوظ رکھا ،ہر آزمائش و قربانی کے لئے غریب ملت کافی ہے ـ اب خیر سے رمضان آرہے ہیں ان کو عمرے،ملی ضرورتوں اور دیگر مصروفیات کے سبب ملک سے باہر رہنا ہوگا ، جبکہ کوئی بھی تحریک سوفیصد انوالومنٹ چاہتی ہے.یہ اختلاف کیا رنگ لائے گا،کیا بورڈ آہسی اختلافات کی وجہ سے خاموش رہے گا یا وقف بل کے حق میں رائے عامہ ہموار کرے گا ،کچھ کہنا مشکل ہے ،ترجمان بورڈ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ انشاء اللہ تحریک ضرور کھڑی ہوگی ، اور قیادت آگے بڑھ کر اقدام کرے گی ،یہ تحریک صرف مسلمانوں کی نہیں ہر مظلوم طبقہ کی ہوگی اور وہ ساتھ دیں گے – بہر حال اختلاف ہوتے ہیں مگر کاز کے لیے اسی سے اشتراک و اتفاق کی نہر نکلتی ہے،