تحریر:احمد منصور_ترجمہ:تنویر آفاقی
شاید میں بڑی حد تک خوش فہمی میں مبتلا قرار دیا جاؤں اگر یہ کہو ں کہ ’طوفان اقصیٰ‘ ممکن ہے کہ فلسطینی مزاحمت اور اسرائیلیوں کے درمیان کی آخری جنگ ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل میں صہیونی منصوبوں کی سربراہی کرنے والوں کے درمیان جاری شدید اٹھا پٹھک اور زبردست داخلی کشمکش مومنین کے لیے اس جنگ کے برےنتائج کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہو جائے۔ دراصل کشمکش اور اٹھا پٹھک اس درجے کی ہے کہ جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد یہ کش مکش ان کے درمیان تصور سے بھی زیادہ گھمسان کی جنگ برپا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کی اکثریت اور بالخصوص انتہاپسند طبقہ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتا۔ یہ طبقہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر جنگ بند ہوئی تو وہ حکومت سے اپنا ہاتھ کھینچ کر اسے گرا دیں گے۔
یہ داخلی کش مکش عن قریب یا بہ دیر اسرائیل کےٹکڑے ٹکڑے ہونے اور صہیونیوں کے ہاتھوں ہی اس کے خاتمے کا ایسے ہی سبب بنے گی جس طرح پہلی اور دوسری یہودی ریاست خود اپنے قائدین کے ہاتھوں ہی ختم ہوئی تھی، یا جس طرح تاریخ کی اور بھی بہت سی حکومتیں داخلی کش مکش کے باعث ختم ہوئی ہیں۔ یہ بات خاص طور سے اس لیے بھی کہی جا سکتی ہے کہ اسرائیل کی زندگی اور بقا کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے امریکہ نے اسرائیل کوایک ایسی داخلی کش مکش اور معاشی بحران میں غرق کر دیا ہے جو اسرائیل اور اس کے صہیونی منصوبوں کے درمیان رکاوٹ بن گیا ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جسے ’’اسّویں برس یا آٹھویں عشرے کی لعنت ‘‘کا نام دیا جاتا ہے اور جس سے صہیونی بہت خوف کھا تے ہیں۔ صہیونی اس لمحے کو اسی طرح تکتے رہتے ہیں جس طرح دماغ میں ٹیومر سے پریشان مریض کسی بھی وقت اپنی حتمی موت کا منتظر رہتا ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے یہودیوں کی جو دو ریاستیں قائم ہوئی تھیں، ان میں سے ایک بھی اسّی (۸۰)برس مکمل نہیں کر پائی تھی۔ یہ وہ لعنت ہے جس کا ذکر خوف واضطراب ، لیکن کسی وژن اور حل کے فقدان کےساتھ ان کے ہر میڈیا میں ہو رہا ہے۔ ان کی حالت اس شخص کی سی ہو رہی ہے جسے کوئی مہلک قسم کا موروثی مرض لاحق ہوچکا ہو، جس کا نہ کوئی دوا ہے، نہ اس کا کوئی توڑ ہے اور نہ علاج ہے۔ بس ہر لمحے موت کے کنویں کو دیکھ بھی رہا ہے ، لیکن اپنا ہر قدم اسی جانب اٹھانے کے لیے مجبور بھی ہے اور آخر کار اسی میں گر گر اپنا خاتمہ کر لے گا۔ اس صورت حال میں نہ تو امریکا، نہ یورپ اور نہ اسرائیل کے عرب حلیف ان صہیونیوں کے درمیان صلح کرا پائیں گے یا اس یقینی و حتمی انجام سے اسے بچا پائیں گے۔
عملاً تو یہ لوگ گزشتہ پانچ برس سے اس داخلی کش مکش کا شکار ہیں۔ اس دوران وہ پانچ بار انتخابات کرا چکے ہیں ۔ کئی متنازع اور ناکام حکومتیں قائم کر چکے ہیں ، لیکن کوئی ان کے درمیان صلح کرانے میں کام یاب نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ طوفان اقصیٰ ہی ہے جس نے انھیں بہ ظاہر متحد کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ سے ان کے تنازعات پس پشت چلے گئے ہیں۔ جنگ کے ختم ہوتے ہیں یہی تنازعات داخلی طور پر ان کے پرخچے اڑا دیں گے۔
طوفان اقصیٰ
میں آپ کو خوابوں کی باتیں نہیں بتا رہا ہوں، نہ قصے کہانیاں، فریب وافسانے بیان کر رہا ہوں۔ یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے اسرائیلیوں کے اخبارات اور وسائل ابلاغ بھرے پڑے ہیں۔ یہ حقائق ان کی حالت کا عکس پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مورخین، مفکرین اور سیاست داں حضرات بھی اس پر باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ان اہم اور تاریک منظرناموں میں سے ایک ہے جس سے اسرائیلی قیادت خوف کھائے ہوئے ہے ۔ خود اسرائیلی وزیر اعظم نے طوفان اقصیٰ سے پہلے اپنے ایک طویل خطاب میں اس سے ہوشیار کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خاص طور سے اسرائیل کے انتہا پسند حلقے کی جانب سے اس بات پر اصرار کیا جا رہا ہے کہ جنگ جاری رہنی چاہیے خواہ کتنا ہی سنگین خسارہ برداشت کرنا پڑے۔ اس لیے کہ یہ جنگ اسرائیلیوں کو داخلی صورت حال سے غافل رکھے گی اور دوسری طرف انھیں جعلی و وقتی اتحاد کا احساس دلا کر شکست و ہزیمت کا اندازہ لگانے سے غافل بھی رکھے گی۔
اسی طرح ۷/ اکتوبر کے بعد سے اللہ کی نشانیاں ایک کے بعد ایک حیران کن شکل میں ظاہر ہو رہی ہیں اور اللہ کی مدد ونصرت پر اہلِ ایمان کا یقین بتدریج افق پر ظاہر ہوتا جا رہا ہے ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ہمیں انتہائی حیران کن صورت حال نظر آئے گی۔ البتہ امت کی زندگی میں آنے والی یہ زبردست تبدیلیاں صبر و یقین کا تقاضا کرتی ہیں۔ اور ’’یہ وہ دن ہوگا جب اہل ایمان اللہ کی مدد و نصرت پر خوش ہو رہے ہوں گے۔‘‘ دیکھنے والوں کے لیے کل کا وہ دن قریب آ چکا ہے۔
(مضمون نگار مصر کے معروف صحافی ہیں)