عبدالحمید نعمانی
عوامی سطح پر، ہندو اکثریتی سماج کے سناتنی طبقے کو برہمن وادی روایات سے جوڑنے میں تلسی داس کا خاصا رول ہے، ان پر مختلف جہات سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، انہوں نے ایک آدرش سماج اور شخصیت کے طور پر تریتا دور اور رام کو پیش کیا ہے، اس کو سمجھنے، جاننے کے لیے اودھی زبان میں ان کی لکھی رام چرت مانس ایک نمایاں شعری تخلیق ہے، جس نے رام بھگتی اور رام کو بھگوان کے اوتار کے تصور کو زبردست فروغ دیا ہے، تریتا دور اور رام کو جاننے کا اصل ذریعہ تو سنسکرت میں مرقوم والمیکی رامائن ہے، تاہم تلسی داس نے اکبر کے عہد میں رام چرت مانس لکھ کر ایک مخصوص پیغام دیا ہے۔
انہوں نے اصل والمیکی رامائن سے کچھ الگ اور کم، زیادہ کر کے باتوں کو دیگر ماخذ سے لے کر مانس میں شامل کر دیا ہے۔ تلسی داس کے عہد سے پہلے خصوصاً سنسکرت معروف کتب میں پیش کردہ نظریات و اقوال کا ترجمہ کر کے اودھی زبان کی تخلیق، رام چرت مانس میں شامل کر دیا ہے۔
اس کا زیادہ تر حصہ ترجمہ پر مبنی ہے اور اپنے طور پر تجزیہ و تبصرہ کرکے واقعی صورت حال کو پیش کرنے پر بہت کم توجہ دی ہے، البتہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ قصہ گوئی کی صلاحیت کا بھر پور استعمال کیا ہے، شعری و ادبی تخلیق کے لحاظ سے رام چرت مانس، ایک عظیم و مقبول تخلیق ہے۔ اس نے ہندو مت کے علوم کو عوام اور دور دراز علاقوں، گاؤں، دیہات، جھونپڑیوں تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
طبقاتی نظام کی کمزور اور گرتی دیواروں کو تقویت پہچانے اور سہارا دینے میں بڑا تعاون کیا ہے، تلسی داس نے کبیر، نانک وغیرہ پر تنقید اس لیے بھی کی ہے کہ وہ طبقاتی نظام، جات پات اور اوتار واد کے خلاف تھے۔ وہ اکبر کے عہد اور صوفیا کے وقت میں تھے لیکن پھر بھی بسااوقات رجعت پسندی کے اثرات سے پوری طرح الگ نہیں کر سکے کہ قدیم کتب میں درج روایات و خیالات سے چشم پوشی کرنا ان کے لیے مشکل تھا اور یہ بھی کہ وہ روایات و خیالات ان کے فکر و وعمل کے موافق و مرغوب تھے۔
اس کی طرف، اسلام سے بیزار، تلسی داس کے معترف، صفدر آہ نے بھی ان پر لکھی کتاب میں اشارہ کیا ہے، تلسی داس نے اپنے پیشرو ملک محمد جائسی کے فارم اور زمینیں بھی مانس میں لے لی ہیں، سابقہ نظریے مثلاً سگن، نرگن وغیرہ کو خوب صورت الفاظ میں پیش کیا ہے، مایا کے متعلق شنکر آچاریہ کے استدلال کو اختیار کیا ہے، نو دھا بھگتی کے متعلق رام سے بہتر اظہار نہیں کرا سکے، زمان و مکان کے سلسلے میں بھی واقعیت پر صحیح توجہ نہیں دے سکے ہیں، ایک مہینے میں اتنا کچھ کرا دیا ہے کہ باتیں سوالات کے گھیرے میں آ جاتی ہیں۔
سردی کے موسم میں صبح صبح پسینہ دکھانا کچھ عجیب سا لگتا ہے، رام کا وواہ، ماگییشور یعنی سردی کے موسم میں ہوا تھا، انسان، خالق اور انسانی سماج کے درمیان تعلقات کو واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب راون کو انسان ہی مار سکتا تھا تو بھگوان کی بات زیادہ بامعنی رہ جاتی ہے۔
راقم سطور کی غیر مطبوعہ کتاب
’’رام، رامائن ،افکار و نظریات، ایک مطالعہ ‘‘ سے