سپریم کورٹ نے منگل کو انہدام یعنی بلڈوزر ایکشن پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی یکم اکتوبر تک لگائی گئی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ عوامی تجاوزات پر ہی کارروائی ہوگی۔بلڈوزر کارروائی پر ریاستوں کو ہدایات دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ بلڈوزر انصاف کی گردان بند کی جائے۔ قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی تجاوزات کو ہٹایا جائے۔
سالیسٹر جنرل نے کہا کہ نوٹس کے بعد ہی غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پر جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ سڑکوں، گلیوں، فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر کی گئی غیر قانونی تعمیرات کو مناسب عمل کے ساتھ گرانے کی اجازت دی جائے گی۔
جسٹس آر گاوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ کے سامنے سالیسٹر تشار مہتا نے کہا کہ جہاں بھی انہدام کی کارروائی کی گئی ہے وہ قانونی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کی گئی ہے۔ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا الزام غلط ہے۔ ایک طرح سے ایک غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔
اس پر جسٹس گوائی نے کہا کہ ہم اس بیانیے سے متاثر نہیں ہو رہے ہیں۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ ہم غیر قانونی تعمیرات کو تحفظ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم ایگزیکٹو جج نہیں بن سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسماری کے عمل کو ہموار کیا جائے۔
جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ عدالت کے باہر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یا نہیں۔ اگر غیر قانونی مسماری کا ایک بھی مسئلہ ہے تو یہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔
واضح ہو کہ گجرات میں میونسپل حکام میں سے ایک نے ایک ایسے خاندان کے گھر کو بلڈوز کرنے کی دھمکی دی جن میں سے ایک کا نام ایف آئی آر میں درج ہے۔
درخواست گزار، کھیڑا ضلع کے کتھلال میں ایک زمین کے شریک مالک نے میونسپل حکام کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے خاندان کی تین نسلیں مذکورہ مکانات میں تقریباً دو دہائیوں سے مقیم ہیں۔
"ایک ایسے ملک میں جہاں ریاست کے اعمال قانون کی حکمرانی کے تحت چلتے ہیں، خاندان کے کسی فرد کی طرف سے خلاف ورزی خاندان کے دیگر افراد یا ان کی قانونی طور پر تعمیر شدہ رہائش گاہ کے خلاف کارروائی کی دعوت نہیں دے سکتی۔ جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی پراپرٹی کو مسمار کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے،” بنچ نے مشاہدہ کیا۔